گلاس اک کانچ کا ٹوٹا پڑا ہے
گلاس اک کانچ کا ٹوٹا پڑا ہے
مجھے لگتا ہے وہ گھر آ گیا ہے
ابابیلیں جو یوں چکرا رہی ہیں
سندیسہ آسماں تک جا چکا ہے
یہ گھر شاید ابھی تازہ گرا ہے
کوئی ملبے کے نیچے جی رہا ہے
یہ پہلے اس قدر میلا نہیں تھا
نہ جانے آسماں کو کیا ہوا ہے
ادھر کچھ آہٹیں ہونے لگی ہیں
کوئی خالی مکاں میں چل رہا ہے
وہی جھولا ہے اب لڑکی نہیں ہے
اکیلا پیڑ آنگن میں کھڑا ہے
سحرؔ میں اب کبھی روتی نہیں ہوں
کوئی آنسو پرانا چبھ رہا ہے