اشک تھم گئے ہوں گے دل سنبھل گیا ہوگا

اشک تھم گئے ہوں گے دل سنبھل گیا ہوگا
جانے کون ساعت پھر دم نکل گیا ہوگا


اتنی آگ تو صاحب پورا گھر جلا دے گی
آنچ دھیمی کر لیجے دودھ ابل گیا ہوگا


مانگ اجاڑنے والو گود کیا اجاڑو گے
ماں غریب ہو کر بھی لعل پل گیا ہوگا


اجنبی خلاؤں میں ڈار سے بچھڑتے ہی
جال بچھ گئے ہوں گے وار چل گیا ہوگا


نا مراد راہوں پر لوٹ کر بھی کیا آتے
بے گھری کے ماروں کا گھر بدل گیا ہوگا


موت کے اندھیرے میں وقت تھم گیا ہوگا
رات بجھ گئی ہوگی دن بھی ڈھل گیا ہوگا


بد گمان ہاتھوں میں کس نے دی کمان آخر
خود ہی تھے نشانے پر تیر چل گیا ہوگا


مضطرب خیالی میں کب خیال رہتا ہے
روٹیاں پکانے میں ہاتھ جل گیا ہوگا


اب کے شام آئی ہے جانے کن زمینوں پر
کون سے جہانوں میں دن نکل گیا ہوگا