سانس در سانس رائیگانی میں

سانس در سانس رائیگانی میں
کٹ گئی عمر بے دھیانی میں


حجرۂ ذات میں چراغ جلا
راہ نمائی تھی راہ فانی میں


میں سناتی تھی داستان طرب
درد ہنستا رہا کہانی میں


ہیں زمان و مکان ہجرت میں
عالم ہو کی لا مکانی میں


کوئی صورت سنبھل نہیں پائی
وقت کی بے کراں روانی میں


بات بے بات ہنستی رہتی تھی
کتنی گستاخ تھی جوانی میں


بھیڑ سے دور بیٹھی رہتی ہوں
بات کرتی ہوں بے زبانی میں


پھر یہ آواز ڈوب جائے گی
جسم کی بے نشاں کہانی میں


وہ فلک پر نہیں ملے گا سحرؔ
چاند کل گر گیا تھا پانی میں