ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحرؔ
ایک بلور سی مورت تھی سراپے میں سحرؔ
چھن سے ٹوٹی ہے مگر ایک چھناکے میں سحرؔ
پاؤں کی انگلیاں مڑ جاتی ہیں بیٹھے بیٹھے
چیونٹیاں رینگتی ہیں تن کے برادے میں سحرؔ
ٹوٹتے رہتے ہیں کچھ خواب ستاروں جیسے
کرچیاں پھیلتی رہتی ہیں خرابے میں سحرؔ
کاغذوں میں تو لکھا ہوگا اسی گھر کا پتا
خود وہ رہتا ہے کسی اور علاقے میں سحرؔ
کتنی مشکل سے گزرتا ہے لہو رگ رگ سے
انگلیاں باندھ رہا ہے کوئی دھاگے میں سحرؔ
کچی پنسل کی لکیروں سے ابھارے تھے نقوش
صدق دھندلا گیا مٹتے ہوئے خاکے میں سحرؔ
یوں ہی معمول کی اک بات پہ دل ٹوٹ گیا
گھر تو ٹوٹا تھا کسی اور دھماکے میں سحرؔ
زرد چہروں پہ لکیروں کی زباں کون پڑھے
وقت کچھ شاعری کرتا ہے بڑھاپے میں سحرؔ