Shahnaz Parveen Sahar

شہناز پروین سحر

شہناز پروین سحر کی غزل

    کانوں میں ناچتی تھی کسی بانسری کی لہر

    کانوں میں ناچتی تھی کسی بانسری کی لہر آنچل میں بھر کے لائے تھے ہم چاندنی کی لہر پھر تیر کس رہا تھا مرے دل کی سیدھ میں تاراج کر گئی مجھے شرمندگی کی لہر دریا کو کس کے ہجر نے پامال کر دیا پھر چاند رات میں اٹھی دیوانگی کی لہر پتھر تراشتے تھے تری صورتوں کے ہم اور سر میں جاگتی تھی تری ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے لکنت ہوئی اور بات سنبھالی اس نے

    مجھ سے لکنت ہوئی اور بات سنبھالی اس نے بس کبھی دیکھی نہیں آنکھ کی لالی اس نے وہ گلے ملتا ہے ملبوس بچا کر اپنا زندگی کیسی کلف دار بنا لی اس نے اجنبی سمت میں پرواز تجسس اس کا دم بخود گھر سے الگ جھوک بسا لی اس نے اتنا معدوم ہوا وہ کہ نظر سے بچھڑا لمس کی یاد بھی پوروں سے اٹھا لی اس ...

    مزید پڑھیے

    ندی کو روک سکی تو ڈھلان باندھوں گی

    ندی کو روک سکی تو ڈھلان باندھوں گی میں اپنی ناؤ پہ خود بادبان باندھوں گی یہ ابر برسا تو دھرتی غروب کر دے گا میں اپنی اوڑھنی میں آسمان باندھوں گی میں گر گئی تری دستار کو سنبھالنے میں روایتوں کو میں شایان شان باندھوں گی وہ میرے گھر کی ہر اک چیز توڑ دیتا ہے میں دل سے درد کی بوجھل ...

    مزید پڑھیے

    یہ دستک اور یہ در میرا نہیں ہے

    یہ دستک اور یہ در میرا نہیں ہے اب اس بستی میں گھر میرا نہیں سفر ہے اور ہی درپیش مجھ کو یہ مشت خاک گھر میرا نہیں ہے میں کس بارود میں بکھری پڑی ہوں یہ دھڑ میرا ہے سر میرا نہیں ہے مجھے میرے حوالے کر گیا ہے تو کیا ہے وہ اگر میرا نہیں ہے یہ کس آنگن میں جھکتا جا رہا ہے شجر میرا ہے گھر ...

    مزید پڑھیے

    ریت سے آندھیوں کا جھگڑا تھا

    ریت سے آندھیوں کا جھگڑا تھا سانس در سانس دم الجھتا تھا وہ اکیلا ہی بھیڑ جیسا تھا وہ مرے چاروں اور چلتا تھا کھیل کھیلا چھپن چھپائی کا چھپنے والا کبھی نہ ملتا تھا اس برس ڈھ گئی ہیں دیواریں پچھلی بارش میں مور ناچا تھا سرخ جوڑا خرید لائی ماں جانے کن لکڑیوں میں جلنا تھا رات ...

    مزید پڑھیے

    جب سے پہچان میں نہیں ہوں میں

    جب سے پہچان میں نہیں ہوں میں گھر کے دالان میں نہیں ہوں میں ہاتھ سے چیز چھوٹ جاتی ہے اپنے اوسان میں نہیں ہوں میں پھول کمھلا گیا تھا پھینک دیا اپنے گلدان میں نہیں ہوں میں ایک سجدے میں ہو چکی تحلیل شب کے وجدان میں نہیں ہوں میں جسم کو کون گھر میں رکھتا ہے جسم ہوں جان میں نہیں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    بے ثمر موسموں میں جنمی ہوں

    بے ثمر موسموں میں جنمی ہوں زرد پتوں کا دکھ سمجھتی ہوں رفتگاں بھید اوڑھ لیتے ہیں اپنے ابا کی قبر ڈھونڈھتی ہوں میرا بچپن بچھڑ گیا مجھ سے اک سہیلی سے روٹھ بیٹھی ہوں خامشی کی گپھاؤں میں اکثر اپنی آواز سن کے سہمی ہوں گھر کی دیوار میں ہی رہتا ہے ایک سائے سے ڈرتی رہتی ہوں مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    عشق کا گھاؤ جان میں رکھ کر بھول گئی

    عشق کا گھاؤ جان میں رکھ کر بھول گئی خود کو آتش دان میں رکھ کر بھول گئی نرگس کے دو پھول اٹھا کر پھینک دئے اور آنکھیں گلدان میں رکھ کر بھول گئی کچھ آنسو تو آنکھوں میں چھپ جاتے ہیں کچھ آنسو مسکان میں رکھ کر بھول گئی گھونسلہ تھا اور شوخ ہوا کی ٹھوکر تھی تنکے میں طوفان میں رکھ کر ...

    مزید پڑھیے

    پھر کبھی خواب نہ آئے وہ سہانے والے

    پھر کبھی خواب نہ آئے وہ سہانے والے میں سمجھتی تھی کہ پھر آئیں گے جانے والے گھر سے نکلے تو ملا اجنبی چہروں کا ہجوم جھڑ گئے پھول بھی شاخوں سے پرانے والے ہم ہیں ٹوٹی ہوئی اک شاخ گل زرد مگر ہم کو گلدان میں رکھیں گے زمانے والے ہم کوئی چاند ستارے ہیں فلک پر چمکیں ہم وہ آنسو ہیں جو مٹی ...

    مزید پڑھیے

    ایک رشتہ بنا رہا ہے مجھے

    ایک رشتہ بنا رہا ہے مجھے ایک رشتہ مٹا رہا ہے مجھے یہ دیا چپ نہیں رہا شب بھر اک کہانی سنا رہا ہے مجھے اب مجھے کیل سے لٹکنا ہے پینٹنگ سی بنا رہا ہے مجھے اشک آنکھوں میں ریت سانسوں میں عشق کیا کیا سکھا رہا ہے مجھے آگ کا راگ ہے اسے مت چھیڑ بے خبر کیوں جلا رہا ہے مجھے لوک دھن جیسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3