کانوں میں ناچتی تھی کسی بانسری کی لہر
کانوں میں ناچتی تھی کسی بانسری کی لہر آنچل میں بھر کے لائے تھے ہم چاندنی کی لہر پھر تیر کس رہا تھا مرے دل کی سیدھ میں تاراج کر گئی مجھے شرمندگی کی لہر دریا کو کس کے ہجر نے پامال کر دیا پھر چاند رات میں اٹھی دیوانگی کی لہر پتھر تراشتے تھے تری صورتوں کے ہم اور سر میں جاگتی تھی تری ...