پھر سر پہ شام آ گئی میں راستے میں ہوں

پھر سر پہ شام آ گئی میں راستے میں ہوں
اک اجنبی سڑک ہے کسی حادثے میں ہوں


اک گرد باد ہے مجھے حد نگاہ تک
تنہا نہیں ہوں دھول بھرے قافلے میں ہوں


تنہائیوں نے پھر ترا چہرہ پہن لیا
تیرے بغیر بھی میں ترے دائرے میں ہوں


تو نے تو مجھ کو عکس مقید سمجھ لیا
تھوڑی سی دیر اور ترے آئنے میں ہوں


میرا بھی ذکر تھا ترے دل کی کتاب میں
قرطاس پر نہیں ہوں مگر حاشیے میں ہوں


سو سال مجھ پہ بیتے ہیں سورج بجھے ہوئے
سو سال جیسی رات سے میں رت جگے میں ہوں


پتھر کی مورتی میں ہے صدیوں کا انتظار
میں بھی اسیر جسم ہوں اور فیصلے میں ہوں


پھر بے گھری کا خوف ہواؤں میں گھل گیا
سات آسمان تیرے ہیں میں گھونسلے میں ہوں