کوئی شفقت بھری سرکار نہیں ہے گھر میں
کوئی شفقت بھری سرکار نہیں ہے گھر میں
جب سے بابا کی وہ دستار نہیں ہے گھر میں
عمر کی بڑھتی تھکن سانس کی بیمار گھٹن
ایک کمرہ بھی ہوا دار نہیں ہے گھر میں
دکھ سنائیں کبھی گھبرائیں تو سر ٹکرائیں
اس طرح کی کوئی دیوار نہیں ہے گھر میں
کبھی آواز میں مرہم کبھی ماتھے پہ شکن
میں سمجھتی تھی اداکار نہیں ہے گھر میں
موہ لیتا ہے وہ گفتار سے دنیا بھر کو
بات کرنے کا روادار نہیں ہے گھر میں
جان لے لیتے ہیں کچھ سرد رویے اکثر
ہم سمجھتے ہیں کہ تلوار نہیں ہے گھر میں
وہ عیادت کے بہانے سے اگر آ بھی گیا
اس سے کہہ دینا کہ بیمار نہیں ہے گھر میں
کون ہے جو تمہیں جاتے ہوئے روکے گا سحرؔ
کچھ رکاوٹ کوئی انکار نہیں ہے گھر میں