Shahida Majeed

شاہدہ مجید

شاہدہ مجید کی غزل

    محبت میں کمی آنے لگی ہے

    محبت میں کمی آنے لگی ہے اسے مصروفیت کھانے لگی ہے ابھی تم تھے اجالا تھا مگر اب اچانک تیرگی چھانے لگی ہے سکوں ملنے لگا ہے اب جنوں سے مری وحشت مجھے بھانے لگی ہے دلوں کو ڈس رہی ہے بد گمانی یہ ناگن زہر پھیلانے لگی ہے سہیلی ہے مری برسوں پرانی اداسی مجھ کو خوش آنے لگی ہے عجب سی دل ...

    مزید پڑھیے

    اے خرد اور جنوں خدا حافظ

    اے خرد اور جنوں خدا حافظ اے دل بے سکوں خدا حافظ رخصتی اپنی ذات سے چاہوں آج خود سے کہوں خدا حافظ مجھ کو اذن مفارقت ہے دوست پھر نہ شاید ملوں خدا حافظ تجھ کو مشکل ہے تو جدائی کی ابتدا میں کروں خدا حافظ یہ گماں تک نہ تھا مجھے اک دن تجھ سے کہنا ہے یوں خدا حافظ روح کو کرب سے رہائی ...

    مزید پڑھیے

    آج موقع ہے جو کہنا ہے مری جاں کہیے

    آج موقع ہے جو کہنا ہے مری جاں کہیے پھر نہ شاید ہو کبھی وقت مہرباں کہیے اتنی قبریں ہیں امیدوں کی مرے دل میں کہ اب شہر دل کو بھی مرے شہر خموشاں کہیے یوں تو اس شہر میں سب دوست ہیں اپنے لیکن کس کو ہمدرد کسے درد کا درماں کہیے تیرگی راتوں کی جھیلی ہے کہ آئے گی کبھی صبح اک ایسی جسے صبح ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوں زندہ بس اس فسانے تک

    میں ہوں زندہ بس اس فسانے تک یاد آنے سے بھول جانے تک تم انا میں گنوا رہے ہو مگر مجھ کو ڈھونڈو گے تم زمانے تک خود بھی اپنا وقار کھو دو گے مجھ کو تا دیر آزمانے تک اپنا دامن نہ تم جلا بیٹھو دیکھنا میرا دل جلانے تک حوصلہ ہے مجھے ستانے کا رو نہ دینا مجھے رلانے تک زندگی کیا ہے کب خبر ...

    مزید پڑھیے

    مری دھڑکنوں کو اچھال کر

    مری دھڑکنوں کو اچھال کر اے فشار خون دھمال کر کہ جو دیکھے سنگ اچھال دے اے جنون میرا وہ حال کر مجھے کچھ تو میری خبر ملے مجھے مجھ میں تھوڑا بحال کر ترے بس میں ہو تو دکھا کبھی مجھے اپنے دل سے نکال کر میں کہ مدتوں سے ہوں لاپتا مجھے ڈھونڈ میرا خیال کر

    مزید پڑھیے

    جو گر جاؤں سنبھلنا جانتی ہوں

    جو گر جاؤں سنبھلنا جانتی ہوں حوادث سے نمٹنا جانتی ہوں شکست آئنہ تک بات پہنچے میں اس درجہ سنورنا جانتی ہوں ہے میری سادگی میں حسن ایسا ترے دل میں اترنا جانتی ہوں بھروسہ رکھنا تم میری وفا پر میں انگاروں پہ چلنا جانتی ہوں نہیں قائل میں ہرگز خودکشی کی مگر میں تجھ پہ مرنا جانتی ...

    مزید پڑھیے

    چراغ شام تھا دن بھر بجھا رہا کوئی

    چراغ شام تھا دن بھر بجھا رہا کوئی غروب شمس کے ہوتے ہی جل گیا کوئی بیان کر نہیں سکتا کبھی محاسن عشق کوئی ردیف غزل میں نہ قافیہ کوئی رفاقتوں میں عجب طرز اجنبیت تھا کہ ساتھ رہ کہ بھی ہم سے رہا جدا کوئی یہ رنگ درد کے آتے نہیں سخن میں یوں ہی نہال دل پہ مرے زخم ہے کھلا کوئی مرے سفر ...

    مزید پڑھیے

    کرے گا یاد ہمیں دور ہم اگر جائیں

    کرے گا یاد ہمیں دور ہم اگر جائیں اس اشتیاق میں جی چاہتا ہے مر جائیں یہ کہہ رہا تھا ہمیں ڈوبتا ہوا سورج سفر تمام ہوا اپنے اپنے گھر جائیں طلوع شمس کی کرنوں نے یہ پیام دیا اجالے بانٹتے جائیں جدھر جائیں دکھاتے ہیں جو ہمیں آئنہ کبھی اس میں خود اپنے عکس کو دیکھیں تو آپ ڈر جائیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہواۓ سبز کا جھونکا کوئی غنچہ کھلاتا ہے

    ہواۓ سبز کا جھونکا کوئی غنچہ کھلاتا ہے خزاؤں کا طلسم زرد آخر ٹوٹ جاتا ہے گلوں کے مخملیں آنچل نمی سے بھیگ جاتے ہیں کسی کی یاد میں شب بھر فلک آنسو بہاتا ہے کسی بے مہر ساعت میں تمہارا مسکرا دینا شب تاریک میں جیسے ستارا ٹمٹماتا ہے تعاقب تتلیوں کا پر اٹھا لانا پرندوں کے کسی جگنو کو ...

    مزید پڑھیے

    حادثوں نے اسے بھی توڑ دیا (ردیف .. ی)

    حادثوں نے اسے بھی توڑ دیا ریزہ ریزہ بکھر گئی میں بھی اک بھنور میں رہا ہے وہ بھی سدا اور کنارے نہ لگ سکی میں بھی اس نے صحرا کی ریت کو اوڑھا خاک میں خاک ہو گئی میں بھی اس نے خود کو بدل لیا آخر اور پہلی سی کب رہی میں بھی میرے دل کو بھی وہ نہ راس آیا اس کے دل سے اتر گئی میں بھی اس کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2