کرے گا یاد ہمیں دور ہم اگر جائیں
کرے گا یاد ہمیں دور ہم اگر جائیں
اس اشتیاق میں جی چاہتا ہے مر جائیں
یہ کہہ رہا تھا ہمیں ڈوبتا ہوا سورج
سفر تمام ہوا اپنے اپنے گھر جائیں
طلوع شمس کی کرنوں نے یہ پیام دیا
اجالے بانٹتے جائیں جدھر جائیں
دکھاتے ہیں جو ہمیں آئنہ کبھی اس میں
خود اپنے عکس کو دیکھیں تو آپ ڈر جائیں
نہ پار لگنے کی حسرت نہ ڈوب جانے کا غم
خیال یار کے دریا میں جب اتر جائیں
یہ گھاؤ ہی تو مری زندگی ہیں میرے طبیب
خیال رکھ یہ مرے زخم ہی نہ بھر جائیں