آج موقع ہے جو کہنا ہے مری جاں کہیے

آج موقع ہے جو کہنا ہے مری جاں کہیے
پھر نہ شاید ہو کبھی وقت مہرباں کہیے


اتنی قبریں ہیں امیدوں کی مرے دل میں کہ اب
شہر دل کو بھی مرے شہر خموشاں کہیے


یوں تو اس شہر میں سب دوست ہیں اپنے لیکن
کس کو ہمدرد کسے درد کا درماں کہیے


تیرگی راتوں کی جھیلی ہے کہ آئے گی کبھی
صبح اک ایسی جسے صبح درخشاں کہیے


سہتے آئے ہیں ستم آپ کے ہنستے ہوئے ہم
اور بھی دل میں اگر ہو کوئی ارماں کہیے


دھند پھیلے گی اداسی کی ابھی دور تلک
ہجر کی رت ہے جسے فصل زمستاں کہیے


کس کے خوابوں سے سجا رکھی ہیں آنکھیں اپنی
کس کی خاطر ہے یہ پلکوں پہ چراغاں کہیے