حادثوں نے اسے بھی توڑ دیا (ردیف .. ی)
حادثوں نے اسے بھی توڑ دیا
ریزہ ریزہ بکھر گئی میں بھی
اک بھنور میں رہا ہے وہ بھی سدا
اور کنارے نہ لگ سکی میں بھی
اس نے صحرا کی ریت کو اوڑھا
خاک میں خاک ہو گئی میں بھی
اس نے خود کو بدل لیا آخر
اور پہلی سی کب رہی میں بھی
میرے دل کو بھی وہ نہ راس آیا
اس کے دل سے اتر گئی میں بھی
اس کے دل میں بھی کوئی رنجش تھی
کچھ خفا اس سے ہو گئی میں بھی
اس نے بھی ہجر کی تپش جھیلی
برہا کی آگ میں جلی میں بھی
زعم اس کے بھی سب ہی ٹوٹ گئے
اور نہ باقی رہی مری میں بھی