Shahida Majeed

شاہدہ مجید

شاہدہ مجید کی غزل

    بحر میں سوچتی تھی میں تم کو

    بحر میں سوچتی تھی میں تم کو شعر میں ڈھالتی تھی میں تم کو سارے جگ میں تلاشنا تو الگ تم میں بھی کھوجتی تھی میں تم کو مختلف تم نہیں تھے دنیا سے مختلف سوچتی تھی میں تم کو کھو کے مجھ کو یہ سوچتے ہو نا کس قدر چاہتی تھی میں تم کو مجھ کو ہر غم نوازنے والے ہر خوشی سونپتی تھی میں تم کو تم ...

    مزید پڑھیے

    زمانے کی فصیلوں کو گرا کر

    زمانے کی فصیلوں کو گرا کر کبھی دیکھیں گے خود کو آزما کر مرے دل پر بھی نازل ہو سکینت مرے مرشد مرے حق میں دعا کر تمہاری راہ کو روشن کیا ہے چراغ جان کو میں نے جلا کر کسی دن ہم تمہاری خاکداں کو چلے جائیں گے اک ٹھوکر لگا کر تمہارا راستہ ہموار کر دوں میں اپنی ذات کا پتھر ہٹا کر فلک ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے پھر سے لگائی صدا اداسی کی

    کسی نے پھر سے لگائی صدا اداسی کی پلٹ کے آنے لگی ہے فضا اداسی کی بہت اڑے گا یہاں پر فسردگی کا غبار کہ پھر سے چلنے لگی ہے ہوا اداسی کی زمین دل پہ محبت کی آب یاری کو بہت ہی ٹوٹ کے برسی گھٹا اداسی کی نظر نظر میں اداسی دکھائی دینے لگی نگر نگر میں ہے پھیلی وبا اداسی کی کسی طبیب کسی ...

    مزید پڑھیے

    دے رہا ہے ثمر اداسی کا

    دے رہا ہے ثمر اداسی کا میرے دل میں شجر اداسی کا پورے تن کو بنا کے مٹی سے دل بنایا مگر اداسی کا مجھ سے اک بار تو سبب تو پوچھ اے مرے بے خبر اداسی کا تو مداوا نہ کر سکے گا کبھی اے مرے چارہ گر اداسی کا آنکھ ویراں ہے ذہن گم صم ہے اور دل ہے نگر اداسی کا میں نے دیکھا اداس نظروں سے موسموں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2