چراغ شام تھا دن بھر بجھا رہا کوئی

چراغ شام تھا دن بھر بجھا رہا کوئی
غروب شمس کے ہوتے ہی جل گیا کوئی


بیان کر نہیں سکتا کبھی محاسن عشق
کوئی ردیف غزل میں نہ قافیہ کوئی


رفاقتوں میں عجب طرز اجنبیت تھا
کہ ساتھ رہ کہ بھی ہم سے رہا جدا کوئی


یہ رنگ درد کے آتے نہیں سخن میں یوں ہی
نہال دل پہ مرے زخم ہے کھلا کوئی


مرے سفر میں مری ہم سفر ہے تنہائی
کہ دو قدم نہ مرے ساتھ چل سکا کوئی


نہ عین پر ہی رکی شین پہ نہ قاف پہ ہی
تمہاری یاد کی منزل نہ انتہا کوئی