شفق سوپوری کی غزل

    میں سوچتا ہوں کنارہ کروں محبت سے

    میں سوچتا ہوں کنارہ کروں محبت سے گزر ہی جاؤں کسی دن مقام عبرت سے میں ایک تختۂ یخ کو پکڑ کے بہتا ہوں بھنور کی آنکھ مجھے تک رہی ہے حیرت سے عجب نہیں کہ جنوں میں یہ معجزہ بھی ہو میں اختیار میں آ جاؤں اپنے وحشت سے غبار خواب اڑا کے گزر گیا کوئی لگی تھی آنکھ مری چاندنی میں غفلت سے نظر ...

    مزید پڑھیے

    گلوں میں رنگ بھرے گا مجھے یہ فکر نہیں

    گلوں میں رنگ بھرے گا مجھے یہ فکر نہیں چنار پھر سے جلے گا مجھے یہ فکر نہیں وہ اونٹ سونگھ کے محمل نشینوں کی خوشبو اٹھے گا یا نہ اٹھے گا مجھے یہ فکر نہیں وہ میرے آگے کوئی مورچہ سنبھالے گا کہ میرے پیچھے چھپے گا مجھے یہ فکر نہیں ہوائیں سنگ کو تعلیم حبس دم دیں یا شجر وظیفہ پڑھے گا ...

    مزید پڑھیے

    حسن لاچار کی باتیں کریں کیا

    حسن لاچار کی باتیں کریں کیا عشق بیمار کی باتیں کریں کیا سوگواری چمن دل پر ہے برگ رخسار کی باتیں کریں کیا نار دوزخ سے ڈرانے والو ہم کسی نار کی باتیں کریں کیا کیسے حالات سے سمجھوتہ کیا اب یہ بیکار کی باتیں کریں کیا سب مکینوں سے تعارف تو ہوا در و دیوار کی باتیں کریں کیا وجہ ...

    مزید پڑھیے

    اب مسخری مت کر چھوڑ فقیر

    اب مسخری مت کر چھوڑ فقیر اٹھ مری چادر چھوڑ فقیر نیند نوالہ فرش دوشالہ دہلیز سے باہر چھوڑ فقیر تو اور سرہانا ڈھونڈ کوئی اس قبر کا پتھر چھوڑ فقیر اندر کا جو بھی شوشہ ہے اندر ہی اندر چھوڑ فقیر ہیں اور بھی لنگر دنیا میں اس درگہ کا در چھوڑ فقیر داب چکا میں تیرے پاؤں اب تو مرا سر ...

    مزید پڑھیے

    نہیں یہ عکس ہوا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں

    نہیں یہ عکس ہوا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں مرے قریب کھڑا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں یہ چیز اور نہیں کوئی میرا سایا ہے مگر یہ مجھ سے جدا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں یہ کوئی پہلو مرا ہے جو ذات سے میری کئی دنوں سے جدا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں جہاں پہ جسم کی دیوار میں شگاف پڑا وہیں سے سبزہ اگا ...

    مزید پڑھیے

    لہرا رہی ہیں کھیت میں گندم کی بالیاں

    لہرا رہی ہیں کھیت میں گندم کی بالیاں اور پہرے پر بجوکے ہیں لے کر دو نالیاں روئے سخن ہے اس کا خریدار کی طرف قصاب دے رہا ہے جو بلی کو گالیاں خنجر اتار دے گا جمورے کے پیٹ میں بوڑھے جوان بچے بجائیں گے تالیاں جوتے نکالتی ہیں ادب سے طوائفیں لیکن پھٹے جرابوں پہ ہنستی ہیں سالیاں بوٹا ...

    مزید پڑھیے

    تو نے نظر سے پیاس کی دیکھا بھی ہے کہیں

    تو نے نظر سے پیاس کی دیکھا بھی ہے کہیں گرد جبین دشت میں دریا بھی ہے کہیں پھرتا رہا ہوں جس کے تعاقب میں عمر بھر کیا نقش اس خیال نے چھوڑا بھی ہے کہیں یا سب ہی میری طرح کے آوارہ گرد تھے دل میں کوئی قرار سے بیٹھا بھی ہے کہیں ہم بھی عجب تھے غاروں میں اترے یہ دیکھنے بچ کر نکلنے کا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوں اک کاغذ قلم بیزار

    میں ہوں اک کاغذ قلم بیزار باد صرصر میں برگ نم بیزار عربی لوگ ہیں تو ہونے دو وہ خدا تو نہیں عجم بیزار دیکھ کر بول چہرے بشرے سے نظر آتا ہوں کیا ستم بیزار اے گریزان آبلہ پائی! دشت مجنون ہے قدم بیزار اک دل مضطرب ہے پہلو میں اور سینہ ہے ایک دم بیزار رشک شانہ سے پیچ کھاتا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2