تو نے نظر سے پیاس کی دیکھا بھی ہے کہیں
تو نے نظر سے پیاس کی دیکھا بھی ہے کہیں
گرد جبین دشت میں دریا بھی ہے کہیں
پھرتا رہا ہوں جس کے تعاقب میں عمر بھر
کیا نقش اس خیال نے چھوڑا بھی ہے کہیں
یا سب ہی میری طرح کے آوارہ گرد تھے
دل میں کوئی قرار سے بیٹھا بھی ہے کہیں
ہم بھی عجب تھے غاروں میں اترے یہ دیکھنے
بچ کر نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہے کہیں
کچھ دیکھتے کہ خاک میں ہیں دفن خواب کیا
یہ گرد باد لمحے کو ٹھہرا بھی ہے کہیں
پھولوں کی سمت ہاتھ بڑھاؤ یہ سوچ کر
افعی سیاہ شاخ سے لپٹا بھی ہے کہیں
ساری صدائیں غیب سے آتی نہیں شفقؔ
کوئی ضرور دشت میں بیٹھا بھی ہے کہیں