نہیں یہ عکس ہوا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں

نہیں یہ عکس ہوا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں
مرے قریب کھڑا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں


یہ چیز اور نہیں کوئی میرا سایا ہے
مگر یہ مجھ سے جدا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں


یہ کوئی پہلو مرا ہے جو ذات سے میری
کئی دنوں سے جدا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں


جہاں پہ جسم کی دیوار میں شگاف پڑا
وہیں سے سبزہ اگا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں


تمہاری آنکھ سے میں اپنے خواب دیکھتا ہوں
یہی تو میری سزا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں


پھسلتی ریت پہ فہرست خواب لکھنی ہے
یہ امتحان کڑا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں


دھواں ہوں پوچھتا ہوں وہ گیا ہے شعلے پر
کہ شعلہ اس پہ گیا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں


تم اپنے آپ سے کیوں اختلاف کرتے ہو
شفقؔ معاملہ کیا ہے سمجھتا کیوں نہیں میں