اب مسخری مت کر چھوڑ فقیر
اب مسخری مت کر چھوڑ فقیر
اٹھ مری چادر چھوڑ فقیر
نیند نوالہ فرش دوشالہ
دہلیز سے باہر چھوڑ فقیر
تو اور سرہانا ڈھونڈ کوئی
اس قبر کا پتھر چھوڑ فقیر
اندر کا جو بھی شوشہ ہے
اندر ہی اندر چھوڑ فقیر
ہیں اور بھی لنگر دنیا میں
اس درگہ کا در چھوڑ فقیر
داب چکا میں تیرے پاؤں
اب تو مرا سر چھوڑ فقیر
یہ جسم کا بوریا تکیہ کے
اک طاق کے اوپر چھوڑ فقیر
پکا ہے گرو گھنٹال شفقؔ
اب اس کا چکر چھوڑ فقیر