لہرا رہی ہیں کھیت میں گندم کی بالیاں

لہرا رہی ہیں کھیت میں گندم کی بالیاں
اور پہرے پر بجوکے ہیں لے کر دو نالیاں


روئے سخن ہے اس کا خریدار کی طرف
قصاب دے رہا ہے جو بلی کو گالیاں


خنجر اتار دے گا جمورے کے پیٹ میں
بوڑھے جوان بچے بجائیں گے تالیاں


جوتے نکالتی ہیں ادب سے طوائفیں
لیکن پھٹے جرابوں پہ ہنستی ہیں سالیاں


بوٹا سا تن تھا پہلو میں اور کنڈلی مار کے
سینے پہ سانپ جیسی تھیں باہوں کی ڈالیاں


اتری تمام رات مرے تن کی آرتی
مہندی لگے وہ ہاتھ تھے پھولوں کی ڈالیاں


واللہ عقیدت آج بھی ہے میرا سین سے
ہم کو بہت پسند ہیں بنگال والیاں


لونڈوں کی ٹھوڑیوں پہ جو سبزہ اگا شفقؔ
کس کام کی رہی ہیں یہ چہروں کی لالیاں