Saleem Figar

سلیم فگار

سلیم فگار کی غزل

    کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے

    کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے اندھیرا پھیلتے ہی ہر طرف سے ڈر نکل آئے ہوئے ہیں کھوکھلے ہم لوگ ہجرت میں سو ڈرتے ہیں خلا یہ روح کا ایسا نہ ہو باہر نکل آئے یہ لگتا ہے کہ پتوں پہ رکھی تھیں منتظر آنکھیں مرے آتے ہی کتنے پھول شاخوں پر نکل آئے نہ جانے کھول دے کب کوئی لمحہ یاد ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں خواب اور رگ و پے میں خوں نہیں

    آنکھوں میں خواب اور رگ و پے میں خوں نہیں لیلیٰ و دشت ہے مگر اب وہ جنوں نہیں یہ اضطراب اور بھی بڑھتا ہے روح میں اب خواب میں بھی مجھ کو میسر سکوں نہیں تنکا سا بن کے رہ گئے ہیں سطح آب پر ہم بہنا چاہتے تھے اے دریا پہ یوں نہیں خالی پڑی ہوئی ہے مری کائنات دل غم بھی کوئی بچا ہوا اب کے ...

    مزید پڑھیے

    جنگل میں ہی آ پہنچے ہیں جنگل سے نکل کر

    جنگل میں ہی آ پہنچے ہیں جنگل سے نکل کر کھائی میں گرے ہیں کسی دلدل سے نکل کر وہ موسم آوارگیٔ آب و ہوا ہے برسات یہاں پھرتی ہے بادل سے نکل کر منظور ہیں کیوں تم کو جدائی کے شب و روز کیوں جاتے ہو تم وصل کے اس پل سے نکل کر اک پیڑ نہ کام آیا تہہ آتش خورشید میں راکھ ہوا ماں ترے آنچل سے نکل ...

    مزید پڑھیے

    زرد پتے کی طرح اڑتا ہوا جاتا ہے

    زرد پتے کی طرح اڑتا ہوا جاتا ہے دن مرا جانے کہاں بکھرا ہوا جاتا ہے صبح اتری ہے تو افلاک سے عالم کا ہجوم جسم کی قید میں پچھتاتا ہوا جاتا ہے سانحہ جو بھی جنم لیتا ہے لمحہ لمحہ خانۂ دل سے مرے ہوتا ہوا جاتا ہے دو گھڑی بیٹھ مجھے آنکھ میں بھر لینے دے سرخ کیوں چاند سا یہ چہرہ ہوا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے

    غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے یہ کیسے کرب کے عالم سے ہم گزارے گئے ہوا ہے اس لئے بھی سوگوار و نوحہ کناں ہجوم شہر میں ہم لوگ لا کے مارے گئے بساط وقت پہ کھیلی گئی ہے جب بازی ہمیں تو کھیل میں ہر سمت رکھ کے ہارے گئے وہ چاند ٹوٹ گیا جس سے رات روشن تھی چمک رہے تھے فلک پر جو سب ...

    مزید پڑھیے

    در و دیوار سب اوندھے گریں گے

    در و دیوار سب اوندھے گریں گے پرانے گھر ہمیں روتے رہیں گے بقا کے شہر میں جانے سے پہلے ہم اپنے جسم کے اندر مریں گے شعور و حرف بھی جو چھن گئے تو اکیلے دشت میں ہم کیا کریں گے کہاں تک جسم کے دے کر نوالے زمیں کا پیٹ ہم بھرتے رہیں گے سحر کی روشنی پھوٹے نہ جب تک اندھیری شب کی آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے

    اک لہر ملی اپنے بہاؤ سے نکل کر

    اک لہر ملی اپنے بہاؤ سے نکل کر چوما ہے اسے میں نے بھی ناؤ سے نکل کر روشن ہیں ترے شعلۂ صد رنگ میں ورنہ ہم کب کے بجھے ہوتے الاؤ سے نکل کر میں سوچتا ہوں زخم اگر بھر گیا دل کا یہ درد کہاں جائے گا گھاؤ سے نکل کر بارانی علاقوں کی طرح آنکھوں کی عادت ہم جائیں کہاں اپنے کٹاؤ سے نکل کر میں ...

    مزید پڑھیے

    ہر تذکرہ کتاب میں تفصیل سے ہوا

    ہر تذکرہ کتاب میں تفصیل سے ہوا میرا سفر شروع ہی تکمیل سے ہوا اس خاکداں پہ پھیلنے والا ہے ایک روز جس قہر کا ظہور کبھی نیل سے ہوا ہر سمت گھومتی تھی یہاں رات جا بجا پھر دن تمہارے چہرۂ قندیل سے ہوا اگتے ہیں ساحلوں پہ کسی پھول کی طرح کیسا یہ عشق طائروں کو جھیل سے ہوا یہ جو تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو سا کوئی دن تو ستارا سی کوئی شام

    خوشبو سا کوئی دن تو ستارا سی کوئی شام بھیجو تو کبھی نور کا دھارا سی کوئی شام پوروں سے نکل کر یہ کہاں جاتی ہے جانے آتی ہی نہیں ہاتھ میں پارا سی کوئی شام یادوں کی ہواؤں میں بڑا زور تھا شاید ہے بکھری پڑی پاؤں میں گارا سی کوئی شام رہتی ہے مرے کمرے میں کوئی تیرہ اداسی اے شعلہ بدن ...

    مزید پڑھیے

    رونق بزم دل سے رخصت مانگی تھی

    رونق بزم دل سے رخصت مانگی تھی سبز رتوں میں خود سے ہجرت مانگی تھی برف بنی جب کالی رات کی تنہائی میں نے جلتے جسم کی حدت مانگی تھی جنت کی ہر شے اس کرب سے واقف ہے پہلے مرد نے کیوں اک عورت مانگی تھی اس قابیل سے ہم ہیں جس نے مقتل میں بار دگر سب نسل کی ذلت مانگی تھی زر کے ڈھیر کے اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3