کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے
کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے اندھیرا پھیلتے ہی ہر طرف سے ڈر نکل آئے ہوئے ہیں کھوکھلے ہم لوگ ہجرت میں سو ڈرتے ہیں خلا یہ روح کا ایسا نہ ہو باہر نکل آئے یہ لگتا ہے کہ پتوں پہ رکھی تھیں منتظر آنکھیں مرے آتے ہی کتنے پھول شاخوں پر نکل آئے نہ جانے کھول دے کب کوئی لمحہ یاد ...