اک لہر ملی اپنے بہاؤ سے نکل کر
اک لہر ملی اپنے بہاؤ سے نکل کر
چوما ہے اسے میں نے بھی ناؤ سے نکل کر
روشن ہیں ترے شعلۂ صد رنگ میں ورنہ
ہم کب کے بجھے ہوتے الاؤ سے نکل کر
میں سوچتا ہوں زخم اگر بھر گیا دل کا
یہ درد کہاں جائے گا گھاؤ سے نکل کر
بارانی علاقوں کی طرح آنکھوں کی عادت
ہم جائیں کہاں اپنے کٹاؤ سے نکل کر
میں دیکھتا ہوں اس لیے افلاک کی جانب
کتنا سفر ہے ارضی پڑاؤ سے نکل کر