در و دیوار سب اوندھے گریں گے

در و دیوار سب اوندھے گریں گے
پرانے گھر ہمیں روتے رہیں گے


بقا کے شہر میں جانے سے پہلے
ہم اپنے جسم کے اندر مریں گے


شعور و حرف بھی جو چھن گئے تو
اکیلے دشت میں ہم کیا کریں گے


کہاں تک جسم کے دے کر نوالے
زمیں کا پیٹ ہم بھرتے رہیں گے


سحر کی روشنی پھوٹے نہ جب تک
اندھیری شب کی آنکھوں میں جلیں گے


ہمارے بعد اس کمرے کے شاید
یہ پردے دیر تک ہلتے رہیں گے


میں لوٹا تو شجر دریا پرندے
خوشی سے میرا ماتھا چوم لیں گے


فگارؔ اک دن مرے پیروں کے چھالے
جو پھوٹے تو نئے رستے بنیں گے