آنکھوں میں خواب اور رگ و پے میں خوں نہیں
آنکھوں میں خواب اور رگ و پے میں خوں نہیں
لیلیٰ و دشت ہے مگر اب وہ جنوں نہیں
یہ اضطراب اور بھی بڑھتا ہے روح میں
اب خواب میں بھی مجھ کو میسر سکوں نہیں
تنکا سا بن کے رہ گئے ہیں سطح آب پر
ہم بہنا چاہتے تھے اے دریا پہ یوں نہیں
خالی پڑی ہوئی ہے مری کائنات دل
غم بھی کوئی بچا ہوا اب کے دروں نہیں
طوفان و برشگال سے گو پرزہ پرزہ ہے
کشتی کا بادبان مگر سر نگوں نہیں
آواز مر رہی ہے مگر شہر میں فگارؔ
کوئی ملول حرف کی میت پہ کیوں نہیں