Saleem Figar

سلیم فگار

سلیم فگار کی نظم

    آخری پڑاؤ

    شاید میری زمین اپنے سفر کے آخری پڑاؤ سے آگے نکل چکی ہے منزل پر جلتے ہوئے فلک بوس الاؤ کی حدت کچھ اتنی تیز ہے کہ درختوں کے جڑوں سے لے کر شاخوں کے سروں پر آنے والا بور تک پسینے اور گرمی سے ہانپ رہا ہے وقت کی کٹھالی میں ابلتے ہوئے حالات کے ساتھ اب کے کسی عقل مند نے ہوا کے ہاتھ پر رکھے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں دار

    جنون حاکمیت خود پسندی کا یہ لاوا کیوں ابلتا اور بہتا جا رہا ہے ساری دھرتی پر کہاں سے حکم آتا ہے یہ کیسی سوچ کے پیرائے میں تم ڈھالے جاتے ہو کہ نفرت اور گہری ہو رہی ہے زمیں زادو بدن دھرتی میں بونے سے فقط قبریں ہی اگتی ہیں لہو بہتا رہا تو مہر و وفا احساس کے سب بہتے دریا سوکھ جائیں ...

    مزید پڑھیے

    بس لوٹ آنا

    سچائیاں اپنے وقت میں کبھی جی نہیں پاتیں سو آنکھوں نے ہمیشہ لمحوں سے دھوکے کھائے تمہیں کیسے رخصت کروں کہ یہ بات امام ضامن اور دعا سے بہت آگے بہت آگے ہے ہتھیلیوں کے گرداب پھسلتے پھسلتے بینائی کی دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں انگلیاں کانوں کو کہاں تک دستک سے دور رکھیں گی دعاؤں کی چھتری میں ...

    مزید پڑھیے

    میں رات حوا

    تم سے صرف ایک بار جنمی گئی ہوں مگر تم تو آج تک مجھ سے جنم لے رہے ہو پھر میں محض اک سایا بن کر کیوں رہ گئی وجود کیوں نہیں بنی میرا پڑاؤ ہمیشہ تمہارے انگوٹھے کے نیچے کیوں رکھا گیا ہے میں تمہارے نام کی سل اپنے بدن سے ہٹا کر کھلی ہوا میں منہ بھر کر سانس لینا چاہتی ہوں باپ بھائی شوہر اور ...

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    تو چھن گیا تو لگا جیسے لکیریں میری ہتھیلی کے کاغذ سے گر گئی ہیں اور ہاتھ کفن سے زیادہ سفید ہو گئے ہیں اب جانے کون سے لمحے کی پر کار لائینوں کی عبارت دوبارہ لکھے میں نے جیت ادھار تو نہیں مانگی تھی ہجر کسی ظالم چودھری کی طرح تمام وصل کا اناج اٹھا کر لے گیا ہے اور بھوک جسم پہ بالوں کی ...

    مزید پڑھیے