Saleem Figar

سلیم فگار

سلیم فگار کے تمام مواد

28 غزل (Ghazal)

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے یہ میں جو راکھ بنی ہے تو روشنی ہوئی ہے رکا نہیں کسی منزل پہ کاروان سفر ازل سے خون میں تحریک سی چلی ہوئی ہے خمیر تخم میں رکھی ہوئی حسیں خواہش گلاب بن کے ہر اک شاخ پر کھلی ہوئی ہے پڑا ہوں جسم کے سانچے میں ہجر اپنا لیے مجھے یہ عمر کہیں ڈھونڈنے گئی ...

    مزید پڑھیے

    دائمی ہجرتوں کے بیٹے ہیں

    دائمی ہجرتوں کے بیٹے ہیں راستے جو گھروں سے نکلے ہیں یہ زمیں مر رہی ہے اندر سے تتلیاں پھول پیڑ روتے ہیں بیٹھ کر سوچتے ہیں ذلت میں ہم وہی آسمان والے ہیں موج در موج خون اچھلے گا ان ہی دریاؤں سے جو اجلے ہیں بٹ رہے ہیں طعام ہر جانب پھر بھی ہم لوگ کتنے بھوکے ہیں تم کو معلوم ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    انائے جذب و جنوں اوج سے کمال گری

    انائے جذب و جنوں اوج سے کمال گری مجھے جو ہوش ملا پاؤں سے دھمال گری یقین ہونے لگا ہر گزرتے دن کے ساتھ شکستہ جسم کی دیوار اب کے سال گری میں اس کی آنکھ کے زیر و زبر سمجھتا ہوں پلک پہ کیوں وہ پلک لمحۂ سوال گری ردائے شرم لئے آنکھ میں میں آگے بڑھا ہوا میں اڑ کے جب اس کے بدن سے شال ...

    مزید پڑھیے

    سہمے نحیف دریا کے دھارے کی بات کر

    سہمے نحیف دریا کے دھارے کی بات کر اب دشت بے کراں کے کنارے کی بات کر دنیا کے مسئلوں میں مجھے بھی شریک رکھ میرے دریدہ دل کے بھی چارے کی بات کر رہنے دے ذکر سود کسی اور وقت پر راہ وفا میں میرے خسارے کی بات کر معیار کے نہ مجھ کو کم و بیش میں پرکھ تجھ کو اگر قبول ہوں سارے کی بات کر ہم ...

    مزید پڑھیے

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے یہ میں جو راکھ بنی ہے تو روشنی ہوئی ہے رکا نہیں کسی منزل پہ کاروان سفر ازل سے خون میں تحریک سی چلی ہوئی ہے خمیر تخم میں رکھی ہوئی حسیں خواہش گلاب بن کے ہر اک شاخ پر کھلی ہوئی ہے پڑا ہوں جسم کے سانچے میں ہجر اپنا لیے مجھے یہ عمر کہیں ڈھونڈنے گئی ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    آخری پڑاؤ

    شاید میری زمین اپنے سفر کے آخری پڑاؤ سے آگے نکل چکی ہے منزل پر جلتے ہوئے فلک بوس الاؤ کی حدت کچھ اتنی تیز ہے کہ درختوں کے جڑوں سے لے کر شاخوں کے سروں پر آنے والا بور تک پسینے اور گرمی سے ہانپ رہا ہے وقت کی کٹھالی میں ابلتے ہوئے حالات کے ساتھ اب کے کسی عقل مند نے ہوا کے ہاتھ پر رکھے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں دار

    جنون حاکمیت خود پسندی کا یہ لاوا کیوں ابلتا اور بہتا جا رہا ہے ساری دھرتی پر کہاں سے حکم آتا ہے یہ کیسی سوچ کے پیرائے میں تم ڈھالے جاتے ہو کہ نفرت اور گہری ہو رہی ہے زمیں زادو بدن دھرتی میں بونے سے فقط قبریں ہی اگتی ہیں لہو بہتا رہا تو مہر و وفا احساس کے سب بہتے دریا سوکھ جائیں ...

    مزید پڑھیے

    بس لوٹ آنا

    سچائیاں اپنے وقت میں کبھی جی نہیں پاتیں سو آنکھوں نے ہمیشہ لمحوں سے دھوکے کھائے تمہیں کیسے رخصت کروں کہ یہ بات امام ضامن اور دعا سے بہت آگے بہت آگے ہے ہتھیلیوں کے گرداب پھسلتے پھسلتے بینائی کی دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں انگلیاں کانوں کو کہاں تک دستک سے دور رکھیں گی دعاؤں کی چھتری میں ...

    مزید پڑھیے

    میں رات حوا

    تم سے صرف ایک بار جنمی گئی ہوں مگر تم تو آج تک مجھ سے جنم لے رہے ہو پھر میں محض اک سایا بن کر کیوں رہ گئی وجود کیوں نہیں بنی میرا پڑاؤ ہمیشہ تمہارے انگوٹھے کے نیچے کیوں رکھا گیا ہے میں تمہارے نام کی سل اپنے بدن سے ہٹا کر کھلی ہوا میں منہ بھر کر سانس لینا چاہتی ہوں باپ بھائی شوہر اور ...

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    تو چھن گیا تو لگا جیسے لکیریں میری ہتھیلی کے کاغذ سے گر گئی ہیں اور ہاتھ کفن سے زیادہ سفید ہو گئے ہیں اب جانے کون سے لمحے کی پر کار لائینوں کی عبارت دوبارہ لکھے میں نے جیت ادھار تو نہیں مانگی تھی ہجر کسی ظالم چودھری کی طرح تمام وصل کا اناج اٹھا کر لے گیا ہے اور بھوک جسم پہ بالوں کی ...

    مزید پڑھیے