زرد پتے کی طرح اڑتا ہوا جاتا ہے

زرد پتے کی طرح اڑتا ہوا جاتا ہے
دن مرا جانے کہاں بکھرا ہوا جاتا ہے


صبح اتری ہے تو افلاک سے عالم کا ہجوم
جسم کی قید میں پچھتاتا ہوا جاتا ہے


سانحہ جو بھی جنم لیتا ہے لمحہ لمحہ
خانۂ دل سے مرے ہوتا ہوا جاتا ہے


دو گھڑی بیٹھ مجھے آنکھ میں بھر لینے دے
سرخ کیوں چاند سا یہ چہرہ ہوا جاتا ہے


دور نو روز سے ہر روز سہولت پا کر
آدمی پہلے سے بھی تنہا ہوا جاتا ہے