Saleem Figar

سلیم فگار

سلیم فگار کی غزل

    دید کے بدلے سدا دیدۂ تر رکھا ہے

    دید کے بدلے سدا دیدۂ تر رکھا ہے ہم کو کیوں راندۂ درگاہ نظر رکھا ہے شب کی دہلیز سے اس سمت ہیں راہیں کیسی پردۂ خواب میں یہ کیسا سفر رکھا ہے سایۂ وصل محبت کی وہ خلوت نہ سہی یہ بھی کافی ہے خیالوں میں گزر رکھا ہے کتنے اوصاف مجھے اپنے عطا اس نے کئے ذوق تخلیق دیا مجھ میں ہنر رکھا ...

    مزید پڑھیے

    شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آ جاتا ہوں

    شام ڈھلتے ہی ترے دھیان میں آ جاتا ہوں یاد کرتی ہو تو اک آن میں آ جاتا ہوں رات ہے جشن مری روح کی آزادی کا صبح پھر جسم کے زندان میں آ جاتا ہوں میں نہیں کچھ بھی مگر تیری نظر پڑتے ہی کوزہ گر میں کسی امکان میں آ جاتا ہوں تجھ سے لکھے ہیں مرے نقش سوئے خاک یہاں آسماں سے اسی احسان میں آ ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے کو نگلتا جا رہا ہوں

    اندھیرے کو نگلتا جا رہا ہوں دیا ہوں اور جلتا جا رہا ہوں مری ہر سمت یہ سائے سے کیوں ہیں میں جیسے دن ہوں ڈھلتا جا رہا ہوں دھواں سا پھیلتا جاتا ہوں بجھ کر حدوں سے اب نکلتا جا رہا ہوں زوال آدمیت دیکھ کر میں کف افسوس ملتا جا رہا ہوں مجھے تو ٹوٹنا ہے حشر بن کر نہ جانے کیوں میں ٹلتا جا ...

    مزید پڑھیے

    شب میں طلوع چہرۂ مہتاب کیجئے

    شب میں طلوع چہرۂ مہتاب کیجئے آغاز روشنی کا نیا باب کیجئے یہ ملگجی سی رات دھواں اور یہ وصال اس مہربان وقت کو آداب کیجئے میں تشنگی سمیٹ کے لایا ہوں عمر کی یک لمحۂ وصال میں سیراب کیجئے ایسے تو ان میں عکس مرا ڈوب جائے گا آنکھیں نہ اپنی خانۂ سیلاب کیجئے پچھتا رہا ہوں خود کو حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    رواں ان پانیوں پر بلبلے ہیں

    رواں ان پانیوں پر بلبلے ہیں صدف گہرے سمندر میں رکھے ہیں شگوفے پھوٹتے ہیں نخل دل پر مرے بچے مجھے جب چومتے ہیں ہوا میں تتلیاں اڑتی ہیں اب بھی ابھی تک لوگ ہنستے بولتے ہیں تمہیں معلوم ہے نا ان لبوں پر مرے حصے کے کچھ بوسے پڑے ہیں ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہمیشہ بڑے اچھے ہمارے مسئلے ...

    مزید پڑھیے

    فصل خزاں میں شاخ سے پتا نکال دے

    فصل خزاں میں شاخ سے پتا نکال دے سوکھے شجر سے کھینچ کے سایہ نکال دے مجھ کو اماں ہو قریۂ وہم و گمان میں دے کر یقین دل سے تو خدشہ نکال دے چاہے شرر سے پھونک دے سارے جہان کو چاہے جسے وہ آگ سے زندہ نکال دے رہبر نہیں ہے اس سا کوئی دو جہان میں بحر رواں کو کاٹ کر رستہ نکال دے بے جان ...

    مزید پڑھیے

    شکم ماہی کبھی طور عطا کرتا ہے

    شکم ماہی کبھی طور عطا کرتا ہے تیرگی اس کی وہی نور عطا کرتا ہے زرد موسم وہی دیتا ہے ہری ٹہنی کو خالی پیڑوں کو وہی بور عطا کرتا ہے نار دوزخ بھی ہے مخلوق اسی خالق کی وہی فردوس وہی حور عطا کرتا ہے اس کو کچھ خوف نہیں دہر کے آقاؤں کا وہ کمک ظاہر و مستور عطا کرتا ہے بھید کھلتے ہیں کبھی ...

    مزید پڑھیے

    چمکتی اوس کی صورت گلوں کی آرزو ہونا

    چمکتی اوس کی صورت گلوں کی آرزو ہونا کسی کی سوچ میں رہنا کسی کی جستجو ہونا وہ پتھر ہے پگھلنے میں ذرا سا وقت تو لے گا ابھی ممکن نہیں ہے اس سے کوئی گفتگو ہونا اسے میں دیکھتا جاؤں کہاں یہ بات آنکھوں میں نہیں آسان سورج کے مسلسل روبرو ہونا اسے آتا ہے لمحوں میں بھی اپنے عکس کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3