دید کے بدلے سدا دیدۂ تر رکھا ہے
دید کے بدلے سدا دیدۂ تر رکھا ہے ہم کو کیوں راندۂ درگاہ نظر رکھا ہے شب کی دہلیز سے اس سمت ہیں راہیں کیسی پردۂ خواب میں یہ کیسا سفر رکھا ہے سایۂ وصل محبت کی وہ خلوت نہ سہی یہ بھی کافی ہے خیالوں میں گزر رکھا ہے کتنے اوصاف مجھے اپنے عطا اس نے کئے ذوق تخلیق دیا مجھ میں ہنر رکھا ...