جنگل میں ہی آ پہنچے ہیں جنگل سے نکل کر

جنگل میں ہی آ پہنچے ہیں جنگل سے نکل کر
کھائی میں گرے ہیں کسی دلدل سے نکل کر


وہ موسم آوارگیٔ آب و ہوا ہے
برسات یہاں پھرتی ہے بادل سے نکل کر


منظور ہیں کیوں تم کو جدائی کے شب و روز
کیوں جاتے ہو تم وصل کے اس پل سے نکل کر


اک پیڑ نہ کام آیا تہہ آتش خورشید
میں راکھ ہوا ماں ترے آنچل سے نکل کر


گڈھے میں پڑا سوکھتا ٹھہرا ہوا پانی
پچھتا رہا ہے موجوں کی ہلچل سے نکل کر


آنکھوں میں امڈ آئی جب ادراک کی بارش
میں سیر ہوا غفلتوں کے تھل سے نکل کر