Saleem Figar

سلیم فگار

سلیم فگار کی غزل

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے یہ میں جو راکھ بنی ہے تو روشنی ہوئی ہے رکا نہیں کسی منزل پہ کاروان سفر ازل سے خون میں تحریک سی چلی ہوئی ہے خمیر تخم میں رکھی ہوئی حسیں خواہش گلاب بن کے ہر اک شاخ پر کھلی ہوئی ہے پڑا ہوں جسم کے سانچے میں ہجر اپنا لیے مجھے یہ عمر کہیں ڈھونڈنے گئی ...

    مزید پڑھیے

    دائمی ہجرتوں کے بیٹے ہیں

    دائمی ہجرتوں کے بیٹے ہیں راستے جو گھروں سے نکلے ہیں یہ زمیں مر رہی ہے اندر سے تتلیاں پھول پیڑ روتے ہیں بیٹھ کر سوچتے ہیں ذلت میں ہم وہی آسمان والے ہیں موج در موج خون اچھلے گا ان ہی دریاؤں سے جو اجلے ہیں بٹ رہے ہیں طعام ہر جانب پھر بھی ہم لوگ کتنے بھوکے ہیں تم کو معلوم ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    انائے جذب و جنوں اوج سے کمال گری

    انائے جذب و جنوں اوج سے کمال گری مجھے جو ہوش ملا پاؤں سے دھمال گری یقین ہونے لگا ہر گزرتے دن کے ساتھ شکستہ جسم کی دیوار اب کے سال گری میں اس کی آنکھ کے زیر و زبر سمجھتا ہوں پلک پہ کیوں وہ پلک لمحۂ سوال گری ردائے شرم لئے آنکھ میں میں آگے بڑھا ہوا میں اڑ کے جب اس کے بدن سے شال ...

    مزید پڑھیے

    سہمے نحیف دریا کے دھارے کی بات کر

    سہمے نحیف دریا کے دھارے کی بات کر اب دشت بے کراں کے کنارے کی بات کر دنیا کے مسئلوں میں مجھے بھی شریک رکھ میرے دریدہ دل کے بھی چارے کی بات کر رہنے دے ذکر سود کسی اور وقت پر راہ وفا میں میرے خسارے کی بات کر معیار کے نہ مجھ کو کم و بیش میں پرکھ تجھ کو اگر قبول ہوں سارے کی بات کر ہم ...

    مزید پڑھیے

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے

    مسلسل آگ میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے یہ میں جو راکھ بنی ہے تو روشنی ہوئی ہے رکا نہیں کسی منزل پہ کاروان سفر ازل سے خون میں تحریک سی چلی ہوئی ہے خمیر تخم میں رکھی ہوئی حسیں خواہش گلاب بن کے ہر اک شاخ پر کھلی ہوئی ہے پڑا ہوں جسم کے سانچے میں ہجر اپنا لیے مجھے یہ عمر کہیں ڈھونڈنے گئی ...

    مزید پڑھیے

    اک لہر ملی اپنے بہاؤ سے نکل کر

    اک لہر ملی اپنے بہاؤ سے نکل کر چوما ہے اسے میں نے بھی ناؤ سے نکل کر میں سوچتا ہوں زخم اگر بھر گیا دل کا یہ درد کہاں جائے گا گھاؤ سے نکل کر بارانی علاقوں کی طرح آنکھوں کی عادت ہم جائیں کہاں اپنے کٹاؤ سے نکل کر میں دیکھتا ہوں اس لیے افلاک کی جانب کتنا سفر ہے ارضی پڑاؤ سے نکل ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم آگہی کی سمت گیا

    ہر قدم آگہی کی سمت گیا میں سدا روشنی کی سمت گیا لفظ لے کر خیال کی وسعت شعر کی تازگی کی سمت گیا میں جو اترا لحد کے زینے سے اک نئی زندگی کی سمت گیا تشنگی کو میں اپنے ساتھ لیے دشت آوارگی کی سمت گیا کچے رنگوں کی اس نمائش سے میں اٹھا سادگی کی سمت گیا نطق پھر تازگی کی خواہش میں گوشۂ ...

    مزید پڑھیے

    کھو دئیے ہیں چاند کتنے اک ستارا مانگ کر

    کھو دئیے ہیں چاند کتنے اک ستارا مانگ کر مطمئن ہیں کس قدر پھر بھی خسارہ مانگ کر موج کے ہم راہ تھا تو سارا دریا ساتھ تھا ہو گیا غرقاب لہروں سے کنارا مانگ کر راکھ میں اب ڈھونڈھتا ہوں میں در و دیوار کو گھر دیا ہے آگ کو میں نے شرارہ مانگ کر تیری مرضی ہو تو بھر کشکول دل خالی مرا میں ...

    مزید پڑھیے

    شفیق موسموں کو ہم نے رو سیاہ کیا

    شفیق موسموں کو ہم نے رو سیاہ کیا زمیں کو گردشوں کا مرکز نگاہ کیا پکڑ کے خود کو گلے سے سوال کرتا ہوں ہرا بھرا یہ جہاں کس لئے تباہ کیا جبیں کو چوم کے میں نے الوہی لمحوں میں تمہارے دل کو محبت کی بارگاہ کیا عذاب آ گیا سر پر تو اب گلہ کیسا تمہیں ہوا نے کئی بار انتباہ کیا بنائیں ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    شفیق موسموں کو ہم نے رو سیاہ کیا

    شفیق موسموں کو ہم نے رو سیاہ کیا زمیں کو گردشوں کا مرکز نگاہ کیا پکڑ کے خود کو گلے سے سوال کرتا ہوں ہرا بھرا یہ جہاں کس لیے تباہ کیا جبیں کو چوم کے میں نے الوہی لمحوں میں تمہارے دل کو محبت کی بارگاہ کیا عذاب آ گیا سر پر تو اب گلہ کیسا تمہیں ہوا نے کئی بار انتباہ کیا بنائیں ہاتھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3