ہر تذکرہ کتاب میں تفصیل سے ہوا

ہر تذکرہ کتاب میں تفصیل سے ہوا
میرا سفر شروع ہی تکمیل سے ہوا


اس خاکداں پہ پھیلنے والا ہے ایک روز
جس قہر کا ظہور کبھی نیل سے ہوا


ہر سمت گھومتی تھی یہاں رات جا بجا
پھر دن تمہارے چہرۂ قندیل سے ہوا


اگتے ہیں ساحلوں پہ کسی پھول کی طرح
کیسا یہ عشق طائروں کو جھیل سے ہوا


یہ جو تمہیں خراب نظر آ رہا ہوں میں
پیدا یہ مسئلہ بھی کسی ڈھیل سے ہوا


اب دیکھیے اترتا ہے کیا آسمان سے
اک فیصلہ تو پہلے ابابیل سے ہوا