رونق بزم دل سے رخصت مانگی تھی
رونق بزم دل سے رخصت مانگی تھی
سبز رتوں میں خود سے ہجرت مانگی تھی
برف بنی جب کالی رات کی تنہائی
میں نے جلتے جسم کی حدت مانگی تھی
جنت کی ہر شے اس کرب سے واقف ہے
پہلے مرد نے کیوں اک عورت مانگی تھی
اس قابیل سے ہم ہیں جس نے مقتل میں
بار دگر سب نسل کی ذلت مانگی تھی
زر کے ڈھیر کے اک جانب کچھ پھول تھے اور
شاہ وقت سے میں نے محبت مانگی تھی