سلیم انصاری کی غزل

    بدن دریدہ ہوں یارو شکستہ پا ہوں میں

    بدن دریدہ ہوں یارو شکستہ پا ہوں میں کہ جیسے اپنے بزرگوں کی بد دعا ہوں میں وہ شخص تو کسی اندھی سرنگ جیسا ہے اور اس سے زندہ نکلنے کا راستہ ہوں میں وہ ہم سفر ہی نہیں مانتا مجھے اپنا یہ جانتا ہوں مگر ساتھ چل رہا ہوں میں یہ بھول جاؤ کہ تم مجھ کو بھول جاؤ گے کبھی تو تم سے ملوں گا کہ ...

    مزید پڑھیے

    برہنہ شاخوں پہ کب فاختائیں آتی ہیں

    برہنہ شاخوں پہ کب فاختائیں آتی ہیں میں وہ شجر ہوں کہ جس میں بلائیں آتی ہیں یہ کون میرے لہو میں دیے جلاتا ہے بدن سے چھن کے یہ کیسی شعاعیں آتی ہیں مجھے سند کی ضرورت نہیں ہے ناقد سے مری غزل پہ حسینوں کی رائیں آتی ہیں خدا سے جن کا تعلق نہیں بچا کوئی سفر میں یاد انہیں بھی دعائیں آتی ...

    مزید پڑھیے

    لہولہان پروں پر اڑان رکھ دینا

    لہولہان پروں پر اڑان رکھ دینا شکستگی میں نیا امتحان رکھ دینا مرے بدن پہ لبوں کے نشان رکھ دینا نئی زمیں پہ نیا آسمان رکھ دینا اگر کبھی مرا سچ جاننے کی خواہش ہو کسی بھی شخص کے منہ میں زبان رکھ دینا ہمارے گھر کی یہ دیوار کتنی تنہا ہے جو ہو سکے تو کوئی سائبان رکھ دینا لڑائی میں جو ...

    مزید پڑھیے

    صداقت کا جو پیغمبر رہا ہے

    صداقت کا جو پیغمبر رہا ہے وہ اب سچ بولنے سے ڈر رہا ہے کہانی ہو رہی ہے ختم شاید کوئی کردار مجھ میں مر رہا ہے ذرا سی دیر کو آندھی رکی ہے پرندہ پھر اڑانیں بھر رہا ہے مرے احباب کھو جائیں گے اک دن مجھے یہ وہم سا اکثر رہا ہے لگی ہے روشنی کی شرط شب سے ستارہ جگنوؤں سے ڈر رہا ہے

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں سے لفظ ذہن سے افکار چھین لے

    ہونٹوں سے لفظ ذہن سے افکار چھین لے مجھ سے مرا وسیلۂ اظہار چھین لے نسلیں تباہ ہوں گی قبیلوں کی جنگ میں جا بڑھ کے اپنے باپ سے تلوار چھین لے نا قدریوں کی اندھی گپھا سامنے ہے پھر دیمک ہی میرے ہاتھ سے شہکار چھین لے انجام خود کشی نہ سہی پھر بھی اے ندیم مجھ سے مری کہانی کا کردار چھین ...

    مزید پڑھیے

    تا حد نظر کوئی بھی دم ساز نہیں ہے

    تا حد نظر کوئی بھی دم ساز نہیں ہے یا پھر مری چیخوں میں ہی آواز نہیں ہے ہنگامے ہیں اس درجہ بپا خلوت جاں میں اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے شاید میں اسی ایک کہانی کا ہوں کردار انجام ہے جس کا مگر آغاز نہیں ہے اللہ یہ کیا منزل ارزانیٔ جاں ہے قاتل ہیں ہر اک موڑ پہ دم ساز نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں

    جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں وہ بھی دن کیا مزے سے نکلے ہیں وہ کہاں نذر جاں کریں اپنی جو پرندے دیے سے نکلے ہیں جو کسی سمت بھی نہیں جاتے ہم اسی راستے سے نکلے ہیں زیست کو پڑھ کے یہ ہوا روشن متن سب حاشیے سے نکلے ہیں سارے ارمان آندھیوں کے سلیمؔ میرے پر ٹوٹنے سے نکلے ہیں

    مزید پڑھیے

    دل غم روزگار سے نکلا

    دل غم روزگار سے نکلا کس گھنے خار زار سے نکلا ہم سفر ہو گئے مہ و انجم میں جو اپنے حصار سے نکلا شور تھا لاٹھیوں کا سڑکوں پر سانپ گھر کی درار سے نکلا جس کو کانٹا سمجھ رہے تھے لوگ اس کا رشتہ بہار سے نکلا کر گیا منتشر نظام جہاں جو بھی ذرہ قطار سے نکلا ہو گیا بحر بیکراں وہ سلیمؔ جو ...

    مزید پڑھیے

    بے حسی چہرے کی لہجے کی اداسی لے گیا

    بے حسی چہرے کی لہجے کی اداسی لے گیا وہ مرے اندر کی ساری بد حواسی لے گیا فصل شعلوں کی اگانا چاہتا تھا شہر میں مانگ کر جو آگ کل مجھ سے ذرا سی لے گیا صبح کے اخبار کی سرخی نے چونکایا مگر رات کا اک خواب ساری بد حواسی لے گیا آج تو سورج بھی میرے بعد ہی جاگا سلیمؔ کون پھر گلدان کے سب پھول ...

    مزید پڑھیے

    فضا میں چھائے ہوئے ہیں اداس سناٹے

    فضا میں چھائے ہوئے ہیں اداس سناٹے ہوں جیسے ظلمت شب کا لباس سناٹے ترے خیال کی آہٹ نے سرد کر ڈالا سلگ رہے تھے ابھی آس پاس سناٹے خودی کے ننھے فرشتوں کو لوریاں دے کر جگا نہ دیں کہیں جسموں کی پیاس سناٹے اٹھاؤ سنگ صدا اور زور سے پھینکو بکھر ہی جائیں گے یہ بے قیاس سناٹے یہ اہل ظرف کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2