دل غم روزگار سے نکلا
دل غم روزگار سے نکلا
کس گھنے خار زار سے نکلا
ہم سفر ہو گئے مہ و انجم
میں جو اپنے حصار سے نکلا
شور تھا لاٹھیوں کا سڑکوں پر
سانپ گھر کی درار سے نکلا
جس کو کانٹا سمجھ رہے تھے لوگ
اس کا رشتہ بہار سے نکلا
کر گیا منتشر نظام جہاں
جو بھی ذرہ قطار سے نکلا
ہو گیا بحر بیکراں وہ سلیمؔ
جو بھی دریا کنار سے نکلا