ہونٹوں سے لفظ ذہن سے افکار چھین لے
ہونٹوں سے لفظ ذہن سے افکار چھین لے
مجھ سے مرا وسیلۂ اظہار چھین لے
نسلیں تباہ ہوں گی قبیلوں کی جنگ میں
جا بڑھ کے اپنے باپ سے تلوار چھین لے
نا قدریوں کی اندھی گپھا سامنے ہے پھر
دیمک ہی میرے ہاتھ سے شہکار چھین لے
انجام خود کشی نہ سہی پھر بھی اے ندیم
مجھ سے مری کہانی کا کردار چھین لے
دریا کے اس طرف تو اکیلا نہیں سلیمؔ
تجھ کو جو چھیننا ہو اسی پار چھین لے