تا حد نظر کوئی بھی دم ساز نہیں ہے
تا حد نظر کوئی بھی دم ساز نہیں ہے
یا پھر مری چیخوں میں ہی آواز نہیں ہے
ہنگامے ہیں اس درجہ بپا خلوت جاں میں
اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے
شاید میں اسی ایک کہانی کا ہوں کردار
انجام ہے جس کا مگر آغاز نہیں ہے
اللہ یہ کیا منزل ارزانیٔ جاں ہے
قاتل ہیں ہر اک موڑ پہ دم ساز نہیں ہے
جو خط ہے لفافے میں اسے غور سے پڑھیے
چہرہ مرے حالات کا غماز نہیں ہے