سلیم انصاری کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    بدن دریدہ ہوں یارو شکستہ پا ہوں میں

    بدن دریدہ ہوں یارو شکستہ پا ہوں میں کہ جیسے اپنے بزرگوں کی بد دعا ہوں میں وہ شخص تو کسی اندھی سرنگ جیسا ہے اور اس سے زندہ نکلنے کا راستہ ہوں میں وہ ہم سفر ہی نہیں مانتا مجھے اپنا یہ جانتا ہوں مگر ساتھ چل رہا ہوں میں یہ بھول جاؤ کہ تم مجھ کو بھول جاؤ گے کبھی تو تم سے ملوں گا کہ ...

    مزید پڑھیے

    برہنہ شاخوں پہ کب فاختائیں آتی ہیں

    برہنہ شاخوں پہ کب فاختائیں آتی ہیں میں وہ شجر ہوں کہ جس میں بلائیں آتی ہیں یہ کون میرے لہو میں دیے جلاتا ہے بدن سے چھن کے یہ کیسی شعاعیں آتی ہیں مجھے سند کی ضرورت نہیں ہے ناقد سے مری غزل پہ حسینوں کی رائیں آتی ہیں خدا سے جن کا تعلق نہیں بچا کوئی سفر میں یاد انہیں بھی دعائیں آتی ...

    مزید پڑھیے

    لہولہان پروں پر اڑان رکھ دینا

    لہولہان پروں پر اڑان رکھ دینا شکستگی میں نیا امتحان رکھ دینا مرے بدن پہ لبوں کے نشان رکھ دینا نئی زمیں پہ نیا آسمان رکھ دینا اگر کبھی مرا سچ جاننے کی خواہش ہو کسی بھی شخص کے منہ میں زبان رکھ دینا ہمارے گھر کی یہ دیوار کتنی تنہا ہے جو ہو سکے تو کوئی سائبان رکھ دینا لڑائی میں جو ...

    مزید پڑھیے

    صداقت کا جو پیغمبر رہا ہے

    صداقت کا جو پیغمبر رہا ہے وہ اب سچ بولنے سے ڈر رہا ہے کہانی ہو رہی ہے ختم شاید کوئی کردار مجھ میں مر رہا ہے ذرا سی دیر کو آندھی رکی ہے پرندہ پھر اڑانیں بھر رہا ہے مرے احباب کھو جائیں گے اک دن مجھے یہ وہم سا اکثر رہا ہے لگی ہے روشنی کی شرط شب سے ستارہ جگنوؤں سے ڈر رہا ہے

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں سے لفظ ذہن سے افکار چھین لے

    ہونٹوں سے لفظ ذہن سے افکار چھین لے مجھ سے مرا وسیلۂ اظہار چھین لے نسلیں تباہ ہوں گی قبیلوں کی جنگ میں جا بڑھ کے اپنے باپ سے تلوار چھین لے نا قدریوں کی اندھی گپھا سامنے ہے پھر دیمک ہی میرے ہاتھ سے شہکار چھین لے انجام خود کشی نہ سہی پھر بھی اے ندیم مجھ سے مری کہانی کا کردار چھین ...

    مزید پڑھیے

تمام

12 نظم (Nazm)

    یہ وقت کیا ہے

    یہ وقت کیا ہے کہ اپنے معمول سے گریزاں ہر ایک شے ہے ہر ایک لمحہ گزشتہ لمحات کی نفی ہے عجیب وہم و یقین کا امتزاج سوچوں میں گھل گیا ہے جو خواب دیکھو تو زندگی پر یقین آئے دیے بجھا دو تو روشنی پر یقین آئے سراب دریا ہے اور ریگ رواں سمندر بدن پہ زخموں کا جال ہے جگنوؤں سے لکھی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    تعبیر

    کوئی ہے بھی کہاں اس شہر میں جو میرے خوابوں کی سہی تعبیر بتلائے کہ میں نے اپنے سارے خواب آنکھوں کی بجائے دل سے دیکھے ہیں

    مزید پڑھیے

    خواہش کا عذاب

    اور پھر ایک دن جسم میں چیختی خواہشیں بے صدا ہو گئیں جب درختوں سے لٹکے ہوئے خوف کے سانپ زہر ناکامیوں کا اگلنے لگے گاؤں کی سونی پگڈنڈی کے موڑ پر حوصلوں کو مرے کچھ ملی روشنی پھر اچانک اندھیرے کی جھاڑی سے نکلی ہوئی سرسراہٹ نے پگھلا دئے خواہشوں کے سلگتے بدن

    مزید پڑھیے

    نیا سقراط

    میں بھی اس عہد کا ایک سقراط ہوں روز پیتا ہوں زہراب تنہائی کا صبح سے شام تک خود سے ملنے کی کوشش میں رہتا ہوں میں اور شاید یہی اک سبب ہے جو تنہا ہوں میں مطمئن ہوں کہ میں اس نئے عہد کا ایک سقراط ہوں روز پیتا ہوں زہراب تنہائی کا اور زندہ ہوں میں

    مزید پڑھیے

    لا حاصل

    وہ تتلیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ایک دن اپنے ماں باپ سے بچھڑ گیا

    مزید پڑھیے

تمام