برہنہ شاخوں پہ کب فاختائیں آتی ہیں

برہنہ شاخوں پہ کب فاختائیں آتی ہیں
میں وہ شجر ہوں کہ جس میں بلائیں آتی ہیں


یہ کون میرے لہو میں دیے جلاتا ہے
بدن سے چھن کے یہ کیسی شعاعیں آتی ہیں


مجھے سند کی ضرورت نہیں ہے ناقد سے
مری غزل پہ حسینوں کی رائیں آتی ہیں


خدا سے جن کا تعلق نہیں بچا کوئی
سفر میں یاد انہیں بھی دعائیں آتی ہیں


انہیں خبر ہی نہیں کب کا بجھ چکا ہوں میں
مری تلاش میں اب تک ہوائیں آتی ہیں


میں چیختا ہوں کسی دشت بے اماں میں سلیمؔ
پھر اس کے بعد مسلسل صدائیں آتی ہیں