جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں

جو ترے دیکھنے سے نکلے ہیں
وہ بھی دن کیا مزے سے نکلے ہیں


وہ کہاں نذر جاں کریں اپنی
جو پرندے دیے سے نکلے ہیں


جو کسی سمت بھی نہیں جاتے
ہم اسی راستے سے نکلے ہیں


زیست کو پڑھ کے یہ ہوا روشن
متن سب حاشیے سے نکلے ہیں


سارے ارمان آندھیوں کے سلیمؔ
میرے پر ٹوٹنے سے نکلے ہیں