بے حسی چہرے کی لہجے کی اداسی لے گیا

بے حسی چہرے کی لہجے کی اداسی لے گیا
وہ مرے اندر کی ساری بد حواسی لے گیا


فصل شعلوں کی اگانا چاہتا تھا شہر میں
مانگ کر جو آگ کل مجھ سے ذرا سی لے گیا


صبح کے اخبار کی سرخی نے چونکایا مگر
رات کا اک خواب ساری بد حواسی لے گیا


آج تو سورج بھی میرے بعد ہی جاگا سلیمؔ
کون پھر گلدان کے سب پھول باسی لے گیا