سلیم انصاری کی غزل

    میز چہرہ کتاب تنہائی

    میز چہرہ کتاب تنہائی بن نہ جائے عذاب تنہائی کر رہے تھے سوال سناٹے دے رہی تھی جواب تنہائی آنکھ سے ٹوٹ کر گرے آنسو ہو گئی بے نقاب تنہائی وصل کے ایک ایک لمحہ کا مانگتی ہے حساب تنہائی آہٹوں کو بھی قتل کر دے گی دور تک کامیاب تنہائی چند بے چہرہ ساعتوں کا سلیمؔ سہہ رہی ہے عذاب ...

    مزید پڑھیے

    بچے کی ضد کو اب تو مرا اعتبار دے

    بچے کی ضد کو اب تو مرا اعتبار دے اے آسماں یہ چاند مرے گھر اتار دے چوری کروں تو ہاتھ مرے کاٹ دے مگر پہلے خدائے وقت مجھے روزگار دے ٹھکرا نہ دوں میں غیر کے ہاتھوں ملی شکست مجھ کو بھی میری نسل ہی مجرم قرار دے یا رب جنون عشق سے محروم رکھ مجھے یا میری وحشتوں کو نئے ریگ زار دے

    مزید پڑھیے

    شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے

    شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے پرندہ شاخ سے لپٹا ہوا ہے سمندر ساحلوں سے پوچھتا ہے تمہارا شہر کتنا جاگتا ہے ہوا کے ہاتھ خالی ہو چکے ہیں یہاں ہر پیڑ ننگا ہو چکا ہے اب اس سے دوستی ممکن ہے میری وہ اپنے جسم کے باہر کھڑا ہے بہا کر لے گئیں موجیں گھروندا وہ بچہ کس لیے پھر ہنس رہا ہے

    مزید پڑھیے

    چراغوں سے ہوائیں لڑ رہی ہیں

    چراغوں سے ہوائیں لڑ رہی ہیں کہ خود بچوں سے مائیں لڑ رہی ہیں نشیمن تو اجاڑے تھے ہوا نے شجر سے فاختائیں لڑ رہی ہیں نئی تہذیب کی بے رہ روی پر پرانی داشتائیں لڑ رہی ہیں برہنہ ہو گئے کردار سارے کہ آپس میں کتھائیں لڑ رہی ہیں جھگڑ کر ہو چکے ہیں دوست بچے ابھی تک مامتائیں لڑ رہی ہیں

    مزید پڑھیے

    مجھ کو سزائے موت کا دھوکہ دیا گیا

    مجھ کو سزائے موت کا دھوکہ دیا گیا میرا وجود مجھ میں ہی دفنا دیا گیا بولو تمہاری ریڑھ کی ہڈی کہاں گئی کیوں تم کو زندگی کا تماشہ دیا گیا آنکھوں کو میری سچ سے بچانے کی فکر میں ٹی وی کے اسکرین پہ چپکا دیا گیا سازش نہ جانے کس کی بڑی کامیاب ہے ہر شخص اپنے آپ میں بھٹکا دیا گیا لہجے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2