میز چہرہ کتاب تنہائی
میز چہرہ کتاب تنہائی بن نہ جائے عذاب تنہائی کر رہے تھے سوال سناٹے دے رہی تھی جواب تنہائی آنکھ سے ٹوٹ کر گرے آنسو ہو گئی بے نقاب تنہائی وصل کے ایک ایک لمحہ کا مانگتی ہے حساب تنہائی آہٹوں کو بھی قتل کر دے گی دور تک کامیاب تنہائی چند بے چہرہ ساعتوں کا سلیمؔ سہہ رہی ہے عذاب ...