فضا میں چھائے ہوئے ہیں اداس سناٹے

فضا میں چھائے ہوئے ہیں اداس سناٹے
ہوں جیسے ظلمت شب کا لباس سناٹے


ترے خیال کی آہٹ نے سرد کر ڈالا
سلگ رہے تھے ابھی آس پاس سناٹے


خودی کے ننھے فرشتوں کو لوریاں دے کر
جگا نہ دیں کہیں جسموں کی پیاس سناٹے


اٹھاؤ سنگ صدا اور زور سے پھینکو
بکھر ہی جائیں گے یہ بے قیاس سناٹے


یہ اہل ظرف کی ہمت کو آزماتے ہیں
ہر ایک دل کو نہیں آتے راس سناٹے


سلیمؔ شام کی تاریکیاں بڑھاتے ہیں
یہی درخت پہ لٹکے اداس سناٹے