Saima Aftab

صائمہ آفتاب

صائمہ آفتاب کی غزل

    گمان پڑتا یہی ہے کہ رہبری ہوئی ہے

    گمان پڑتا یہی ہے کہ رہبری ہوئی ہے یہ اپنی راہ کسی راہ سے جڑی ہوئی ہے ہزار ابر محبت یہاں برس بھی چکے بس ایک شاخ تمنا نہیں ہری ہوئی ہے گزشتہ شب سے وہ ہے شہر میں کہیں موجود فضا میں خوشبوئے وابستگی رچی ہوئی ہے ملی تھی ہم کو خدا سے بہشت کے بدلے مگر یہ زندگی معیار سے گری ہوئی ہے افق ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں اب نہیں باقی حوصلہ بچھڑنے کا

    مجھ میں اب نہیں باقی حوصلہ بچھڑنے کا ملتجی ہوں دینا مت عندیہ بچھڑنے کا اس سے بڑھ کے کیا ہوتا زندگی کے دامن میں ایک غم ہے ہونے کا دوسرا بچھڑنے کا پیار اور توقع کے سلسلے نہ بڑھ جائیں اس جگہ مناسب ہے سوچنا بچھڑنے کا آپ کی سہولت بس ہم عزیز رکھتے ہیں مانگ لو عطا ہوگا راستہ بچھڑنے ...

    مزید پڑھیے

    عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ

    عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ کہ دل نے پالا ہوا ہے ہر ایک ذات کا دکھ تلاش جنت و دوزخ میں رائیگاں انساں زمیں پہ روز مناتا ہے کائنات کا دکھ کئی جھمیلوں میں الجھی سی بد مزہ چائے اداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ تمام دن کی مصیبت تو بانٹ لی ہم نے کبھی کہا ہی نہیں اپنی اپنی رات کا ...

    مزید پڑھیے

    آ جاتا ہے خود پاس بلانا نہیں پڑتا

    آ جاتا ہے خود پاس بلانا نہیں پڑتا ملنے کے لئے ہاتھ بڑھانا نہیں پڑتا کچھ ایسی سہولت سے مکیں دل میں ہوا وہ مجھ کو بھی مری ذات سے جانا نہیں پڑتا یہ خاص رعایت ہے کہ اب دیس میں اپنے غم مفت میں ملتا ہے کمانا نہیں پڑتا اس شہر سے اس شہر تلک سیدھی سڑک ہے فی الحال تو رستے میں زمانہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تغافل بے نیازی کا گلا کافی نہیں ہے

    تغافل بے نیازی کا گلا کافی نہیں ہے مرا رستہ ہی روکو اب صدا کافی نہیں ہے یہ گہری کالی آنکھیں دیکھ تو کیا کہہ رہی ہیں انہیں پابند رکھنے کو وفا کافی نہیں ہے تمہارے کاسۂ الفت میں کچھ سکے اچھالے تمہارا دل لبھایا یہ صلہ کافی نہیں ہے؟ زمینی بات ہے ٹھہرے گی آخر جستجو پر ہمیشہ ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    جنون ختم ہوا اعتدال رہ گیا ہے

    جنون ختم ہوا اعتدال رہ گیا ہے بپھر رہا تھا جو دریا نڈھال رہ گیا ہے جسے دعا کے سہارے پہ ابتدا کیا تھا گزر گیا ہے وہ موسم وہ سال رہ گیا ہے تمہارے سرد رویے سے صاف ظاہر ہے ہمارا کچھ تو تعلق بحال رہ گیا ہے جھٹک کے ہاتھ چلا ہے بڑی ہی عجلت میں ذرا ٹھہر کہ ضروری سوال رہ گیا ہے کہ دل میں ...

    مزید پڑھیے

    جاتے جاتے گلے لگاتا کیا

    جاتے جاتے گلے لگاتا کیا وہ مرا اور دل دکھاتا کیا پھر وہی خوش گماں طبیعت اف تجربہ کچھ نہیں سکھاتا کیا؟ جانے والے تو جا چکے کب کے اب یہاں خاک ہے اڑاتا کیا شام ہستی کا پھڑپھڑاتا چراغ لو بھلا اور سے لگاتا کیا میں ہوں مجبور آئنہ تو نہیں درد کو خوش نما دکھاتا کیا کچھ نیا تھا ہی کب ...

    مزید پڑھیے

    جزیرے دھند کے پیچھے چھپے تھے

    جزیرے دھند کے پیچھے چھپے تھے سمندر سے جہاں موسم ملے تھے کسی کے بازوؤں کو یاد کر کے یوں اپنے آپ میں سمٹے ہوئے تھے مسلسل ایک حیرت کا سفر ہے کہاں پہنچے کہاں سے ہم چلے تھے

    مزید پڑھیے

    اے رنج آگہی کوئی چارہ تو ہوگا نا

    اے رنج آگہی کوئی چارہ تو ہوگا نا چل خوش نہ رہ سکیں گے گزارا تو ہوگا نا یہ آرزو بھی وقت کے دھارے میں بہہ گئی اب ناں سہی کبھی وہ ہمارا تو ہوگا نا جاتی ہے جو متاع دل و جاں تو کیا ملال یہ عشق کی دکاں ہے خسارہ تو ہوگا نا ہر آن جس کا ذکر ہے اس بے نیاز نے بھولے سے میرا نام پکارا تو ہوگا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2