مجھ میں اب نہیں باقی حوصلہ بچھڑنے کا
مجھ میں اب نہیں باقی حوصلہ بچھڑنے کا
ملتجی ہوں دینا مت عندیہ بچھڑنے کا
اس سے بڑھ کے کیا ہوتا زندگی کے دامن میں
ایک غم ہے ہونے کا دوسرا بچھڑنے کا
پیار اور توقع کے سلسلے نہ بڑھ جائیں
اس جگہ مناسب ہے سوچنا بچھڑنے کا
آپ کی سہولت بس ہم عزیز رکھتے ہیں
مانگ لو عطا ہوگا راستہ بچھڑنے کا
ہر ملن جدائی کی اولین منزل ہے
وصل ہی سے جڑتا ہے سلسلہ بچھڑنے کا
بے سکون شاموں سے بے یقین صبحوں تک
طے ہوا ہے آخر ہر مرحلہ بچھڑنے کا
بھانپ تو گئے تھے ہم ساتھ عارضی ہے یہ
جان من مگر پھر بھی دکھ ہوا بچھڑنے کا