جنون ختم ہوا اعتدال رہ گیا ہے

جنون ختم ہوا اعتدال رہ گیا ہے
بپھر رہا تھا جو دریا نڈھال رہ گیا ہے


جسے دعا کے سہارے پہ ابتدا کیا تھا
گزر گیا ہے وہ موسم وہ سال رہ گیا ہے


تمہارے سرد رویے سے صاف ظاہر ہے
ہمارا کچھ تو تعلق بحال رہ گیا ہے


جھٹک کے ہاتھ چلا ہے بڑی ہی عجلت میں
ذرا ٹھہر کہ ضروری سوال رہ گیا ہے


کہ دل میں ٹیس بھی اٹھتی ہے دیر دیر کے بعد
ترا خیال بھی اب خال خال رہ گیا ہے


گیا ہے جو بھی اسے روند کر گیا آخر
یہ باغ خواب نما پائمال رہ گیا ہے


چراغ ہجر سے ابھری ہے اک دھوئیں کی لکیر
سو درد بجھ گیا ہے اور ملال رہ گیا ہے