جزیرے دھند کے پیچھے چھپے تھے

جزیرے دھند کے پیچھے چھپے تھے
سمندر سے جہاں موسم ملے تھے


کسی کے بازوؤں کو یاد کر کے
یوں اپنے آپ میں سمٹے ہوئے تھے


مسلسل ایک حیرت کا سفر ہے
کہاں پہنچے کہاں سے ہم چلے تھے