گمان پڑتا یہی ہے کہ رہبری ہوئی ہے
گمان پڑتا یہی ہے کہ رہبری ہوئی ہے
یہ اپنی راہ کسی راہ سے جڑی ہوئی ہے
ہزار ابر محبت یہاں برس بھی چکے
بس ایک شاخ تمنا نہیں ہری ہوئی ہے
گزشتہ شب سے وہ ہے شہر میں کہیں موجود
فضا میں خوشبوئے وابستگی رچی ہوئی ہے
ملی تھی ہم کو خدا سے بہشت کے بدلے
مگر یہ زندگی معیار سے گری ہوئی ہے
افق پہ پھیلا ہوا ہے فراق یار کا رنگ
اداس شام مری گود میں پڑی ہوئی ہے