آ جاتا ہے خود پاس بلانا نہیں پڑتا
آ جاتا ہے خود پاس بلانا نہیں پڑتا
ملنے کے لئے ہاتھ بڑھانا نہیں پڑتا
کچھ ایسی سہولت سے مکیں دل میں ہوا وہ
مجھ کو بھی مری ذات سے جانا نہیں پڑتا
یہ خاص رعایت ہے کہ اب دیس میں اپنے
غم مفت میں ملتا ہے کمانا نہیں پڑتا
اس شہر سے اس شہر تلک سیدھی سڑک ہے
فی الحال تو رستے میں زمانہ نہیں پڑتا
افسانۂ ہستی بھی بہت خوب ہے جس میں
کردار کوئی سا بھی نبھانا نہیں پڑتا
اک کرب مسلسل کہ مرا پہلو نشیں ہے
اک لطف دروں جس کو گنوانا نہیں پڑتا
اب لوہا اگاتے ہیں درختوں کی جگہ ہم
کوئل کو بھی اب شور مچانا نہیں پڑتا