Saima Aftab

صائمہ آفتاب

صائمہ آفتاب کی غزل

    گمان پڑتا یہی ہے کہ رہبری ہوئی ہے

    گمان پڑتا یہی ہے کہ رہبری ہوئی ہے یہ اپنی راہ کسی راہ سے جڑی ہوئی ہے ہزار ابر محبت یہاں برس بھی چکے بس ایک شاخ تمنا نہیں ہری ہوئی ہے ملی تھی ہم کو خدا سے بہشت کے بدلے مگر یہ زندگی معیار سے گری ہوئی ہے افق پہ پھیلا ہوا ہے فراق یار کا رنگ اداس شام مری گود میں پڑی ہوئی ہے اٹھا لے ...

    مزید پڑھیے

    دین و دنیا بھلا کے بیٹھے ہیں

    دین و دنیا بھلا کے بیٹھے ہیں رنگ ایسا چڑھا کے بیٹھے ہیں عشق بھی مقصد حیات نہیں عشق کو آزما کے بیٹھے ہیں ایک شکوؤں بھرا کیا میسج ایک پکچر جلا کے بیٹھے ہیں پھر مروت میں جست بھر لی اور پھر نئی چوٹ کھا کے بیٹھے ہیں بات سے بات بن پڑے اپنی بات آگے بڑھا کے بیٹھے ہیں جو مرا ساتھ دینے ...

    مزید پڑھیے

    عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ

    عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ کہ دل نے پالا ہوا ہے ہر ایک ذات کا دکھ تلاش جنت و دوزخ میں رائیگاں انساں زمیں پہ روز مناتا ہے کائنات کا دکھ کئی جھمیلوں میں الجھی سی بد مزا چائے اداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ گئے دنوں کا کوئی خواب دفن ہے شاید کہ اب بھی آنکھ سے رستا ہے باقیات ...

    مزید پڑھیے

    غم ہجراں کی ماری ڈھونڈھتی ہے

    غم ہجراں کی ماری ڈھونڈھتی ہے ہوا خوشبو تمہاری ڈھونڈھتی ہے ڈگر پہ چلنے والی زندگی بھی کبھی بے اختیاری ڈھونڈھتی ہے یکایک ہو گیا ہے خوف رخصت کہ اب ہرنی شکاری ڈھونڈھتی ہے اجل اک عالم وحشت میں رقصاں سبھی کو باری باری ڈھونڈھتی ہے پرندے کھوج میں نکلے ہوئے ہیں مجھے صبح بہاری ...

    مزید پڑھیے

    کمال ضبط کو یکسر بھی آزمانا نہیں

    کمال ضبط کو یکسر بھی آزمانا نہیں تباہ کیجیے چپ چاپ پر جتانا نہیں تو شہر دل میں نیا ہے سو مشورہ سن لے زیادہ گہرے مراسم یہاں بنانا نہیں چلا گیا ہے مگر یہ سبق سکھا گیا ہے ترس دوبارہ کسی دل زدہ پہ کھانا نہیں کریدتے ہوئے قسمت کے بند تہہ خانے لگے ہیں سانپ مرے ہاتھ پر خزانہ نہیں اب ...

    مزید پڑھیے

    مری بپتا بھی کتنی دکھ بھری ہے

    مری بپتا بھی کتنی دکھ بھری ہے جسے تقدیر سن کر ہنس رہی ہے یہاں سوچوں کے پر کیسے کھلیں گے محض جسموں پہ سب دنیا رکی ہے مجھے بھیجا تو پورا تھا خدا نے مگر حصوں کی قیمت لگ رہی ہے کہاں کا عشق اور کیسی محبت ہوس ناکی کی اک منڈی سجی ہے میں فردا فخر آدم کیوں نہیں تھی بہت ارزاں مری بولی لگی ...

    مزید پڑھیے

    سرور و رقص و مستی، میں نہیں ہوں

    سرور و رقص و مستی، میں نہیں ہوں مکمل گھر گرہستی میں نہیں ہوں وہی صدیوں پرانی، عام عورت انوکھا راز ہستی، میں نہیں ہوں ہے دل کی آرزو صحرا نوردی شہر، قصبہ یا بستی، میں نہیں ہوں کہیں اک کھیت میرا منتظر ہے سو دریا پر برستی میں نہیں ہوں مرے ان قہقہوں کا راز سمجھو بسا اوقات ہنستی ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ شوق ترا حظ اٹھانا چاہوں گی

    نگاہ شوق ترا حظ اٹھانا چاہوں گی خیال خام تجھے آزمانا چاہوں گی مری بھی مٹی وہی ہے کہ جو چناب کی ہے سو جلدباز ہوں اور پار جانا چاہوں گی تمہارے گھر کو سجاتی اگر سنبھل پاتی بکھر گئی ہوں تو اب خاک اڑانا چاہوں گی گھنے درخت تری مہربان چھاؤں میں اداس شام کا اک گیت گانا چاہوں گی اگرچہ ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑنے کی سہولت مل نہ جائے

    بچھڑنے کی سہولت مل نہ جائے مکیں کو اذن ہجرت مل نہ جائے میں کانپ اٹھتی ہوں اتنا سوچ کر ہی کہ تو حسب ضرورت مل نہ جائے ہتھیلی سے نہ مس ہو جائے ناول فسانے سے حقیقت مل نہ جائے بیابانوں سے جو گھبرا کے لوٹے انہیں بستی میں وحشت مل نہ جائے میں ورد سورۂ رحمان رکھوں مجھے جب تک ہدایت مل ...

    مزید پڑھیے

    اسی بنا پہ اگر کی تو دوستی کروں گی

    اسی بنا پہ اگر کی تو دوستی کروں گی فقط تمہاری نہیں، اپنی بات بھی کروں گی اس احتیاط کے کھونٹے سے باندھ مت مجھ کو کہ جتنی بس میں مرے ہے میں زندگی کروں گی زمیں پہ پورے تسلسل سے عشق چاہیے ہے یہ کام پہلا کیا ہے یہ آخری کروں گی وہ ترک پاس وفا ہی تھا دشمنی نہیں تھی حضور پاس تعلق تو آج ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2