Saima Aftab

صائمہ آفتاب

صائمہ آفتاب کی نظم

    خیال

    میز کی دراز سے کچھ ڈھونڈتے ہوئے نگاہ کسی کے دئے گئے پین پر پڑی دفعتاً ذہن میں یہ خیال کوندا کہ میری لکھی ہوئی ڈائری بھی تو اسی کے پاس ہوگی زندگی کے سفر میں ہم کتنا کچھ ایک دوسرے کو سونپتے ہیں اور پھر اجنبی بن جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    مقصدیت

    مرے پیارے خداوندا مجھے جب کن کی ساعت میں ترے بے عیب یکتا دست قدرت نے ترے آدم کی باقی بچ رہی مٹی سے گوندھا تھا مرا نقشہ بنایا تھا تو مجھ میں کیا ترے آدم سے کمتر روح پھونکی تھی کہ جیسے بے دلی عجلت میں کوئی کام نمٹایا مری تخلیق کیا خالق تری چشم تصور کی کسی منصوبہ سازی کی نہیں مرہون ...

    مزید پڑھیے

    اندازہ

    مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ جب تم زینہ زینہ دل میں اترو گے تو اس کے موسموں کو ایک لحظے میں حدوں سے بھی سوا مسرور اور رنجور کر دو گے تم آؤ گے تو جنت اور جہنم ساتھ لاؤ گے خوشی کی آبشاریں غم کے جھرنے ساتھ پھوٹیں گے مرے پھیلائے دامن میں اچانک ہی تصور سے کہیں آگے کا سکھ اور دکھ عطا ...

    مزید پڑھیے

    ہمیشہ

    ہمیشہ ایک لمحہ ہے ہمیشہ جاودانی ہے یہ کچھ گھنٹے ہمیشہ ہیں ہمیشہ زندگی بھر ہے سنو جب کہہ رہے تھے ہم ہمیشہ ساتھ رہنا ہے تو مطلب کیا بھلا اس کا ہمیشہ کس نے دیکھا ہے

    مزید پڑھیے