جاتے جاتے گلے لگاتا کیا

جاتے جاتے گلے لگاتا کیا
وہ مرا اور دل دکھاتا کیا


پھر وہی خوش گماں طبیعت اف
تجربہ کچھ نہیں سکھاتا کیا؟


جانے والے تو جا چکے کب کے
اب یہاں خاک ہے اڑاتا کیا


شام ہستی کا پھڑپھڑاتا چراغ
لو بھلا اور سے لگاتا کیا


میں ہوں مجبور آئنہ تو نہیں
درد کو خوش نما دکھاتا کیا


کچھ نیا تھا ہی کب کہانی میں
قصہ گو لکڑیاں جلاتا کیا


جل پری تیرنے نہیں آئی
جھیل کی سمت چاند جاتا کیا


ہے برا ایک دن تو اچھا ایک
کیا کوئی روتا مسکراتا کیا