اے رنج آگہی کوئی چارہ تو ہوگا نا

اے رنج آگہی کوئی چارہ تو ہوگا نا
چل خوش نہ رہ سکیں گے گزارا تو ہوگا نا


یہ آرزو بھی وقت کے دھارے میں بہہ گئی
اب ناں سہی کبھی وہ ہمارا تو ہوگا نا


جاتی ہے جو متاع دل و جاں تو کیا ملال
یہ عشق کی دکاں ہے خسارہ تو ہوگا نا


ہر آن جس کا ذکر ہے اس بے نیاز نے
بھولے سے میرا نام پکارا تو ہوگا نا


میں زاد رہ کے طور پہ بس خواب لائی ہوں
اے ہم سفر تجھے یہ گوارا تو ہوگا نا


کیا اجنبی بنیں گے اگر پھر کبھی ملے
کیا بات بھی نہ ہوگی اشارہ تو ہوگا نا


کرنا کرانا چھوڑ زبانی ہی ساتھ دے
تنکے کا ہو اگرچہ سہارا تو ہوگا نا